ماخام خٹک
پشتو ادب کے معمار اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابقہ جنرل سیکرٹری اور صدر مرحوم و مغفور سلیم راز کے بارے میں پشتو اردو ادب کے ممتاز شاعر، ادیب، کالم نگار اور مؤرخ سعداللہ جان برق نے دو ہزار انیس میں پشتو اکیڈمی کوئٹہ کی جانب سے منعقدہ سیمینار کے دوران ایک عشایئے میں غیررسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ سلیم راز اکثر کوئی نه کوئی ایک بات ادب میں سامنے لاتے ہیں اور پھر اس موضوع کو تین چار سال تک بحث و مباحثے میں کھینچتے رہتے ہیں جیسے کہ ان دنوں سلیم راز صاحب نے کہا تھا کہ ادب میں کوئی غیرجانبداری نہیں ہوتی، غیرجانبداری خود بہت بڑی جانبداری ہوتی ہے۔
سلیم راز صاحب کے بقول ظالم اور مظلوم کے درمیان غیرجانبدار رہنا ظالم کے ساتھ کھڑے رہنے کے مترادف ہے۔ سعداللہ جان برق صاحب کے خوشگوار موڈ کو دیکھ کر ایک شرارتی شاگرد کے طور پر میں نے بھی بات کو مزید خوشگوار بنانے کے لئے کہا کہ حضرت! بعض منصب اور نسب کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ غیرجانبدار رہے یا وہ قدرتی یا فطری غیرجانبدار ہوتے ہیں جس پر حسب عادت قہقہہ لگا کر بولے منصب کی تو بات سمجھ آ رہی ہے لیکن یہ نسب کی بات آپ کی ناقابل فہم ہے یا پھر آپ نے لگے ہاتھوں اِس اصطلاح کی ضرورتاً تخلیق کی ہے۔ میں نے وضاحت میں کہا حضرت! نسب سے مراد میرا غیرجانبدار جنس ہے۔
لازمی بات ہے ہمارا بے ضرر اور خاصہ اچھا طبقہ فطری اور قدرتی غیرجانبدار ہے۔ ان کے لئے اردو کی اصطلاحات بھی تذکیر و تانیث کے روادار نہیں کیونکہ وہ نہ "تھا ” میں ہیں اور نہ "تھی” میں! جس کے لئے انگریزی خواں نہ "ہی” میں اور نہ ” شی ” میں کہتے ہیں۔ جس پر سعداللہ جان برق صاحب بولے ایسا نہیں ہے، وہ بھی معاشرتی اور پہچان کے حوالے سے غیرجانبدار نہیں، جو بندہ یا بندی، یا تھا یا تھی جب وضع قطع، لباس اور چال ڈھال جن کا رکھے گا ان ہی میں شمار ہو گا۔ اگر "تھا "کا وضع قطع” تھی” کا ہے تو ”تھی” کے صف میں شمار ہو گا اور اگر "تھی” کا وضع قطع "تھا” کا ہو گا تو تھا میں گنا جائے گا، آپ کو اب تک ان میں کوئی بغیر کسی مخصوص وضع قطع کے نظر آیا ہے؟
مطلب اب آپ اس کو تمہید سمجھیں یا تعارفی پیراگراف لیکن جو بات میں کرنے جا رہا ہوں وہ آج کل جانبداری اور غیرجانبداری کی چلتی بحث سے متعلق ہے۔ عمران خان اپنی اِس بات سے پہلے، اِس بات کا کریڈٹ لے رہے تھے کہ بین الاقوامی کرکٹ میں نیوٹرل امپائر انہی کی تجویز پر آئے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں یکایک یہ غیرجانبداری انسانوں سے نکل کر جانورں میں منتقل ہو گئی، شاید یہ عمران خان کا یوٹرن کا تسلسل ہو، بلکہ یقیناً ہے۔ لیکن اب یہ جانور کرکٹ میں کیسے اپنے فیصلے کر سکیں گے؟
لیکن شاید ہم بھول جاتے ہیں کیونکہ نیوٹرل امپائر کے پاس فیصلے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ ان کا فیصلہ ریفر بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اُدھر بھی نیوٹرل امپائر ہوتا ہے۔ یا تو وہ ان کا اِس فیصلے میں ساتھ دیتا ہے یا پھر اُن کے خلاف ہوتا ہے لیکن دینا ہی فیصلہ ہوتا ہے۔ یا "حکومتی” بیٹنگ کرنے والے فریق کے حق میں یا پھر "اپوزیش”بولنگ کرنے والے کے حق میں! جانبدار تو پھر بھی ہوا۔ کسی کے پویلین بھیجنے اور نہ بھیجنے کا اختیار تو پھر بھی ان کو حاصل ہے۔ اور پھر ایسی صورت میں بندہ اپنی ہی بات سے پھر جائے اور اپنے ہی تجویز کنندہ کو جانور سے تشبیہ دے تو پھر جانور تو جانور ہوتا ہے وہ لات مارے یا چک مارے۔
ویسے بھی کہاوت ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ لیکن پشتو ضرب المثل ہے کہ "د خر مینہ لتہ وی۔” یعنی کھوتے یا گدھے کا پیار لات مارنا ہوتا ہے۔ لیکن جب کھوتا یا گدھے جیسا جانور پیار جانتا ہو بھلے وہ لات ہی مار کر پیار کرتا ہو تو پھر بھی غیرجانبدار نہیں ہوا کیونکہ جب کوئی کسی سے پیار کرتا ہے تو وہ اس کے لئے سب کچھ کرتا ہے، وہ اس کے لئے جان کی بازی بھی لگاتا ہے۔ گو کہ ہمارے ہاں یہ سب سے زیادہ بے وقوف جانور جانا جاتا ہے۔ اور وہ اِس لئے کہ یہ صرف اور صرف بوجھ اُٹھاتا ہے، باربرداری کے کام آتا ہے۔ حالانکہ نہ اس جانور کا گوشت ہمارے ہاں کھایا جاتا ہے اور نہ اِس جانور کا فضلہ دیگر جانورں کی طرح کھاد کے لئے استعمال ہوتا ہے اور نہ گدھے کی کھال کسی کام کی ہے لیکن یہ تو اللہ بھلا کرے چین کا جس سے ہماری "دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے” کہ اُدھر کھوتوں کی مانگ ہوتی ہے تو ہم نے گزشتہ سالوں گدھے کے گدھے چین بھیجے اور گدھے کی کھال بھی اُنھوں نے قابل استعمال بنائی۔ اب اگر اس پیار کے لئے کوئی کھوتے کی لات بھی کھائے تو قابل قبول ہے ورنہ اگر گدھا اپنی آواز یا احتجاج پر اتر آیا تو یہ واحد جانور ہے کہ اِس کی آواز میں ترنم یا خوش اوازی تو درکنار اِس پر لا حول اور استغفار کا ورد کرنا پڑتا ہے۔