سیاستکالم

میلسی کا جلسہ، عمران خان اور پشاور دھماکہ

ماخام خٹک

گزشتہ جمعہ کو جب پشاور میں کوچہ رسالدار قصہ خوانی بازار کی ایک مسجد میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں تریسٹھ افراد شہید اور دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے تو اس دن ملک کے وزیر اعظم میلسی میں ایک سیاسی جلسہ کر رہے تھے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس المناک واقعے کے بعد عمران خان میلسی کا جلسہ اسی وقت ملتوی کرتے اور سیدھے پشاور پہنچتے لیکن نہ صرف یہ کہ عمران خان نے میلسی کا جلسہ ملتوی نہیں کیا بلکہ اس جلسے میں جو سیاسی جذبات کا اظہار کیا وہ اس دن کی مناسبت سے بالکل بھی مناسب نہیں تھا۔ وه تو چھوڑیں، وه دن تو گزر گیا، اس کے بعد اب تک کئی دن گزر چکے ہیں اور مزید گزر رہے ہیں لیکن تب بھی اور آج بھی عمران خان نے پشاور کا دورہ نہیں کیا اور نہ شہداء کے لواحقین اور نہ زخمیوں اور نہ زخمیوں کے رشتہ داروں سے ملے، نہ ان سے ہمدردی اور نہ ان کے دکھوں کا مداوا کیا۔
یہ وہی پشاور ہے جس نے پہلی بار عمران خان کو سیاسی طور پر دنیا میں روشناس کرایا اور پہلی بار صوبائی حکومت بنانے جیسے سیاسی قوت کا حامل بنایا۔ یہ وہی پشاور ہے جس نے دوسری بار بھی عمران خان کو صوبائی حکومت بنانے اور قومی اسمبلی میں اتنی تعداد سے نوازا کہ عمران خان ملک کے وزیر اعظم بھی بنے لیکن یہ جس کسی نے بھی کہا ہے بالکل درست کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاست میں تمام تر رشتےاور تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔

عمران خان اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک میں ایسے الجھے کہ یہ سانحہ ہی سرے سے بھول گئے گو کہ وہ عدم اعتماد تحریک کے سلسلے میں دوروں پر دورے کر گئے اور کراچی تک پہنچے اور کراچی کے اندر بھی دورے کئے اور مزید سندھ کے دوروں کا بھی ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس دوران پشاور سانحے کے حوالے سے ایسا کوئی ان کا بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ پشاور جانے کا بھی کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔

پشاور کے لوگوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان پر اندھا اعتقاد اور اعتماد کیا تھا اور اندھے اعتقاد اور اندھے اعتماد کا نتیجہ ایسا یہی نکلتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے اور ماننے کی ہے کہ گورنر، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تعزیت کے لئے گئے تھے، کور کمانڈر بھی گئے تھے لیکن اتنے بڑے سانحے کے بعد اور اتنے لوگوں کی شہادت اور زخمی ہونے کے بعد اگر اس سانحے کا کچھ مداوا ہو سکتا تھا تو وہ خود عمران خان کی بحیثیت وزیر اعظم دورہ سے ممکن تھا۔

میرے خیال اور دانست میں عمران خان کے دو بول اُن کی تسلی اور تشفی کے لئے نہ صرف کافی اور شافی تھے بلکہ تریاق کا کام کرتے لیکن کیا کریں کہ اب تک یہ ممکن نہ ہو سکا ہے۔ پشاور سٹی کے لوگوں کا اب بھی کہنا اور ماننا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو کم اور عمران خان کو زیادہ جانتے اور مانتے ہیں اور جو لوگ جن کو جانتے اور مانتے ہیں تو ان سے اپنائیت اور انسیت کی بھی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ اس توقع پر پورا نہیں اُترتے تو پھر اور کچھ بندہ کر سکتا ہو یا نہیں گلہ یا شکوہ ضرور کرتا ہے اور پھر جن کو اپنا سمجھتا ہو تو پھر تو گلہ بنتا ہی اپنوں سے ہے۔

اب بھی اتنی دیر نہیں ہوئی ہے، اپنے گلے شکوے ضرور کرتے ہیں لیکن جب اپنے ایک دوسرے کے آمنے اور سامنے ہو جاتے ہیں تو پھر اگلے پچھلے تمام گلے شکوے بھی بھول جاتے ہیں۔ بقول اجمل خٹک کے: ع
ناکردو دے راتہ زڑہ دغمے دغمے کڑو
خو چے مخامخ شوے بس یو سو گیلے شوے
یعنی تیرے ستم کے باعث میرے دل میں پھپھولے اُمڈ آئے تھے، پر پھر بھی جب آمنا سامنا ہوا تو فقط ایک دو گلے شکوؤں کی بات تھی۔
یا پشتو کا ٹپہ ہے کہ
جانان زما کور تہ راغلے
دغہ راتگ یی زہ پہ ڈیر سہ قبلومہ

یعنی آج میرا جانان یا محبوب میرے گھر پر آیا ہوا ہے، میں اس کی یہ آمد بہت کچھ اور متاع گراں سمجھتا ہوں۔
ویسے بھی مظلوم اور دکھی لوگوں کے دل نرم ہوتے ہیں اور نرم دل لوگ کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں اور نرم دل لوگوں کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ اچھائی میں یہ کم سے کم دعا ہی دے سکتے ہیں اور برائی یا برے وقت میں زیادہ سے زیادہ بددعا ہی کر سکتے ہیں اور پھر اگر بندہ مظلوم بھی ہو تو مظلوم کی بددعا عرش مولا تک براہ راست پہنچتی ہے۔

ویسے بھی عدم اعتماد کا مسئلہ چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، کیا پتہ کسی مظلوم کی بددعا لگ جائے یا پھر کسی مظلوم کی دعا قبولیت کے درجہ پر فائز ہو جائے اور پھر بندہ پرور خانقاہی اور سلسلہِ گدی نشینی سے بھی واسطہ رکھتا ہو تو پھر ان کے لئے تو یہ سب کچھ کرنا کوئی مشکل بھی نہیں ہوتا۔ بس بسم اللہ کرنے کی دیر ہوتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button