سیاستکالم

پانچ دن اور 48 گھنٹوں کے الٹی میٹم کا نتیجہ، کوئی گارنٹی نہیں!

ماخام خٹک

جب کسی کا روٹ بدل دیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ جنہوں نے جو راستہ اپنایا یا اختیار کیا ہوا ہے یا تو وہ ان کے لئے درست نہیں یا پھر جنہوں نے تبدیل کیا ہے وہ اسے ٹھیک نہیں مانتے۔

کل جب بلاول بھٹو کے لانگ مارچ کو کہا گیا کہ پنڈی میں ان کے داخلے پر پابندی ہے جس کے لئے عذر پاک آسٹریلیا ٹیسٹ میچ قرار دیا گیا اور ڈی تک یا ڈی چوک تک براہ راست پہنچانے کی انہیں اجازت دی گئی۔ اور آج (کل) بلاول کا موقف آیا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے سو فی صد نہیں بول سکتے اور عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد یہ دیکھیں گے کہ ایمپائر جانبدار ہے یا غیرجانبدار!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹھیک ٹھاک بندہ یا خاصا سیاسی بندہ سیاست کو کھیل بنا دے اور وہ بیچ کھیل کے یا دوران کھیل امپائر کی جانبداری اور غیرجانبداری کا سوال اٹھائے تو اس کی دو باتیں ہو سکتی ہیں: یا تو وہ کھلاڑی کھیلنا نہیں چاہتا یا پھر کھیل کے اصول نہیں جانتا اور یا پھر اپنی خراب کارکردگی کا نزلہ امپائر پر گرانا چاہتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ جب عمران خان نے کل اعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لئے تیار ہیں تو ادھر بلاول نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے سو فی صد چانس نہ ہونے کا کہا جب کہ مولانا فضل الرحمان مکمل تیاری کا دعوی کرتے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے پاس اگلے انتخابات کے لئے آنے والا سال ہے اور دونوں انتخابات مہم چلانے کے لئے عوامی آواز یا عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بل بوتے پر میدان میں اتریں گے۔ اگر اپوزیشن یا ان کے ساتھی کامیاب ہوتے ہیں تحریک عدم اعتماد میں تو وہ جیتنے کے باوجود آنے والی ہار کے لئے جائیں گے اور اگر حکومت تحریک عدم اعتماد میں ہارتی یا ناکام ہوتی ہے تو وہ ناکامی یا ہار کے باوجود آنے والی کامیابی یا جیت کے لئے پر تول رہے ہوں گے۔

ہمارے ہاں مسائل حل کرنے کے بجائے مسائل کو ڈسکس کرنے پر عوامی رائے اپنی جانب مبذول کرانے کا رواج ہے جیسے کہ نواز شریف کو ہٹانے کے بعد جو ایک نعرہ مل گیا تھا ‘مجھے کیوں نکالا’ اس وقت ان کا مخاطب کوئی اور تھے لیکن اگر عمران کو نکالا جاتا یے تو ان کو بھی یہی نعرہ سوٹ کرے گا کہ مجھے کیوں نکالا لیکن ان کے مخاطب کوئی اور ہوں گے۔

وہ بولیں گے کہ مجھے امریکہ نے نکالا کیوں کہ وہ روس بلاک میں جانا چاہتے تھے، وہ عالمی بینک، ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف سے قوم کو چھٹکارہ دلانا چاہتے تھے اور امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو کو ان کا یہ موقف یا ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ بھی یہی کہیں گے کہ مجھے کیوں نکالا لیکن ساتھ ساتھ جواز بھی دیں گے کہ مجھے اس لئے نکالا اور وہ امریکہ خلاف موقف کو عوام میں بھی مقبول کرا سکتے ہیں۔

لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرتی بھی ہے کہ نہیں کیونکہ جب اپوزیشن کو خود یہ باور نہ ہو کہ یہ سو فی صد کامیاب ہو گی کہ نہیں اور ان کا تکیہ امپائروں پر ہو تو پھر تو مشکل لگ رہا یے کیونکہ حکومت بھی کھیل میں کمزور نہیں اور پھر جنہوں نے عالمی سطح پر نیوٹرل امپائر کا سہرا سر پر سجایا ہوا ہو وہ کیونکر بلاوجہ جانبداری اور غیرجانبداری کے چکروں میں پڑیں گے اور جب حکومت کو یہ بھی پتہ ہو کہ مخالف کھلاڑی خود ہی اپنے اپ کو رن آؤٹ یا ہٹ وکٹ کروا رہا ہے تو پھر حکومت ایسے موقع پر اپیل بھی نہیں کرے گی اور نہ کسی نائٹ واچ مین کو لانے کے موڈ میں ہو گی۔ وہ فالو آن پر بھی راضی ہو گی اور ایک اننگز اور سرپلس رنز سے شکست دینے کے لئے بھی تیار ہو گی اگر ان کو یہ معلوم ہو کہ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ اگلی ٹیم کو اگر فالو آن کے باوجود کھیلنے کے لئے اننگز دی جائے اور ان کو ہدف پورا ہونے سے پہلے آؤٹ بھی کر سکتے ہیں تو پھر کھیل کا کھیل اور مزید ریل پیل!

ویسے وکٹ پر بھی انحصار ہوتا ہے کہ وہ گھومتی ہوئی گیندوں کو سوٹ کرے گی یا پھر تیز یارکرز کو؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سیاست میں کھیل کو لانا مقصود ہو یا تھا اور امپائر کا رول ضروری تھا یا ہو تو پھر تو اپنی صلاحیت پر کیا انحصار اور جب خود پر انحصار ہی نہیں ہو تو پھر اتنے تماشائی اکٹھا کرنے یا جمع کرنے کا کیا مطلب یا اتنے شورشرابے اور واویلے کا کیا مطلب، جو کچھ بھی اگر کرنا تھا تو چپکے سے کرتے اگر ہو جاتا تو اپنا کریڈٹ لیتے اور اگر ہار جاتے تو اگلے کو اپنے سے مضبوط گردان کر واپس پویلین کا رخ کرتے اور آنے والی باری یا سیریز کا انتظار کرتے۔

ہر بار کھلاڑی آؤٹ اف فارم نہیں ہوتا، فارم واپس بھی حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ کھلاڑی ہو اور کھیلنا بھی جانتا ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button