سیاستکالم

تحریک عدم اعتماد: عوام کی پکار، اپوزیشن خبردار اور وزیر اعظم کی للکار!

ساجد ٹکر

اپوزیشن کی ساری جماعتیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے پر بالآخر متفق ہو گئی ہیں۔ عدم اعتماد اتنا ہی آئینی اور قانونی عمل ہے جتنا کہ حکومت سازی۔ اسی طرح عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے کوششیں بھی جمہوری سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ایک قسم کی جنگ کی سی صورتحال ہوتی ہے جس میں ہر فریق کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح کامیابی اسے ملے۔

پاکستان آج کل مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور امن و امان جیسے مسائل کا شکار ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کی ساری توجہ عدم اعتماد پر مرکوز ہے۔ عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے ایک جانب بلاول بھٹو زرداری سندھ کی جانب سے حکومت پر حملہ آور ہیں تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی متحرک ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو چلتا کرنا تمام اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے اور ایک عرصہ سے کوشش میں تھیں لیکن طریقہ کار پر کچھ بڑی جماعتوں میں اختلاف تھا۔

پاکستان مسلم لیگ ن حکومت کا خاتمہ چاہتی تھی اور تازہ انتخابات کی حامی تھی جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی پہلے اِن ہاوس تبدیلی کے حق میں تھی۔ پھر گزشتہ سال کے کچھ واقعات کی بناء پر دونوں بڑی پارٹیاں حکومت مخالف کچھ امور پر ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔ پاکستان مسلم لیگ نے بھی کچھ لچک دکھائی اور پیپلز پارٹی نے بھی کچھ باتیں مان لیں۔ تاہم اب ایسا لگ رہا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے بیچ کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن پر کہ ان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔

لیکن یہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دونوں جماعتیں عمران حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ اسی مقصد کے لئے دونوں جماعتوں نے حکومت کے اتحادیوں یہاں تک کہ چوہدری برادران کے بھی دیدار کر لئے۔ جہانگیر ترین سے بھی رابطہ استوار ہوا اور حکومتی کچھ ارکان کو بھی توڑنے کے دعوے کیے گئے۔ مولانا صاحب دعوی کر رہے ہیں کہ ان کی تیاری مکمل ہے اور اس بار خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ بلاول بھٹو بھی عمران خان کو حکومت چھوڑنے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نے اس بار مکمل تیاری کر لی ہے۔

دوسری جانب حکومت بھی سو نہیں رہی اور ان کی جانب سے بھی دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کہہ رہے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی اور ساتھ میں دعوی کرتے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے ان کے دس ارکان توڑے ہیں تو انہوں نے اپوزیشن کے 15 ارکان توڑ رکھے ہیں۔

اسی طرح عمران خان نے بھی اپوزیشن کو پوری قوت سے للکارا ہے کہ وہ تیار ہیں اور اپوزیشن آ کر زور دکھائیں۔ اپوزیشن کی جانب سے اپنے ارکان کو اسلام آباد کے قرب و جوار میں رہنے کا حکم سامنے آیا ہے کیونکہ کچھ ماہرین دعوی کر رہے ہیں کہ شائد اپوزیشن کی جانب سے 8 یا 9 مارچ کو یہ اقدام اٹھایا جائے۔ تاہم واضح طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

گیم مکمل طور پر آن ہے لیکن کارڈز ابھی تک ان لوگوں نے سینے سے لگا رکھے ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتیں بھی مخمصے کا شکار نظر آ رہی ہیں۔ ق لیگ ہو یا ایم کیو ایم، جی ڈے اے ہو یا باپ، کوئی بھی کھل کر اپنے موقف کو سامنے نہیں لے کر آ رہا۔ تاہم کچھ ہوائیں ایسی چل رہی ہیں جن کی مدد سے حالات کا تھوڑا بہت اندازہ ہو سکتا ہے یعنی ایک طرف اگر ندیم افضل چن پی ٹی آئی سے مستعفی ہو کر دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں تو دوسری جانب عمران خان کے ساتھی علیم خان بھی جہانگیر ترین سے جا ملے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی دس بارہ ایم پی ایز کا گروپ بھی ہے جو کہ بہت جلد جہانگیر ترین گروپ کو پیارا ہونے والا ہے۔

اس ساری گیم میں بڑے کھلاڑی تو دو ہی ہیں یعنی اپوزیشن اور حکومت لیکن اہمیت جہانگیر ترین گروپ اختیار کر رہا ہے کیونکہ ساری گیم اعداد و شمار یعنی ‘نمبر گیم’ کی ہے اور اس کھیل کا سارا دارومدار ان حالات میں جہانگیر ترین اینڈ گروپ پر ہے۔ وہ مگر پچھلے کچھ دنوں سے لندن جا بیٹھے ہیں اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ان کی لندن میں نواز شریف سے ملاقات بھی ہو چکی ہے۔

اب اگر عدم اعتماد لائی جاتی ہے تو اپوزیشن پراعتماد ہے کہ کامیابی ان کی ہو گی لیکن دوسری جانب حکومت سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ عمران خان اتنی آسانی سے مسند اقتدار چھوڑنے والے نہیں۔ لیکن کچھ تبدیلیاں اور کچھ اشارے اس بار عمران خان کے لئے مشکل حالات کا قصہ بیان کر رہے ہیں۔ مثلاً عمران خان کے قریبی وزیر اور اپوزیشن پر بے رحمی سے گرجنے برسنے والے شیخ رشید نے بھی اب کی بار عمران خان کو نہ صرف جہانگیر ترین سے بلکہ پوری اپوزیشن سے بیٹھ کر بات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سیانے سمجھ سکتے ہیں کہ شیخ رشید کے مشورہ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ لیکن عمران خان نے میلسی جلسہ میں اپنی تقریر میں جس طرح اپوزیشن راہنماؤں کو للکارا ہے تو اس سے لگ رہا ہے کہ عمران خان بات کرنے کے تو کیا کسی کی بات سننے کے موڈ میں بھی نہیں ہیں۔ تاہم رائے بنانے والے کہتے ہیں کہ حکومت کے لئے اتنے سالوں میں پہلی بار مشکل وقت آن پہنچا ہے اور اس لئے وزیراعظم بوکھلاہٹ کا شکار نظر آ رہے ہیں اور اپوزیشن پر بری طرح سے برس رہے ہیں۔

ایسے حالات میں جب کسی ملک کو بیرونی اور اندورنی محاذوں پر مشکل صورتحال کا سامنا ہو تو حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ ملاتی ہے اور مشکل حالات کو قابو کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالتی ہے لیکن جب سے یہ حکومت آئی ہے تب سے مسلسل اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان حالات میں کم از کم حکومت اور اپوزیشن سے مل بیٹھ کر بات کرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

حالات کو بڑے کینوس پر رکھ کر دیکھا جائے تو اپوزیشن اگر حقیقی معنوں میں متحد ہوتی ہے اور دل سے عدم اعتماد لاتی ہے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی کیونکہ ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، ایسا اس ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ لوگوں کے روزگار چھن گئے، روزمرہ اشیاء کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں اور لوگوں کا جینا محال ہو گیا۔

عدم اعتماد کے لئے عوامی جذبات کے مطابق بات یا تجزیہ کیا جائے تو میدان بالکل ہموار اور تیار ہے کیونکہ عوام میں مزید اس حکومت کے دن برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس سے پہلے دو بار عوام موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا چکی ہے؛ ایک سارے ملک کی سطح پر جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں تو ایک دو کے علاوہ باقی ساری نشستوں پر حکومت کو شکست ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرا عدم اعتماد خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ تھا جس میں کہ ساٹھ نشستوں میں حکومت کے حصہ میں صرف 15 نشستیں آئیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ منطقی، عوامی اور جذباتی طور پر عدم اعتماد کے لئے راستہ ہموار بلکہ بالکل تیار ہے لیکن ایک سوال اب بھی اپنی جگہ پر جواب طلب ہے کہ کیا اپوزیشن بھی مکمل طور تیار اور ایک پیج پر ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت، نواز شریف کے تازہ انتخابات دو الگ چیزیں ہیں۔

عدم اعتماد ہوتا ہے یا نہیں، کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، سارا جمہوری عمل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام رل گئے ہیں، ان کی چیخیں نکل گئی ہیں اور مزید ان میں مہنگائی کو برداشت کرنے کی سکت بالکل بھی نہیں ہے۔

ساجد ٹکر پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ورکنگ جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پشتو اور انگریزی میں بھی مختلف سماجی، سیاسی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button