ماخام خٹک
بعض ممالک مشہور دوستی کے لئے ہوتے ہیں اور بعض ممالک جانے دشمنی کے لئے جاتے ہیں لیکن امریکہ وہ واحد ملک ہے کہ وہ جو جانا تو دوستی کی وجہ سے لیکن پہچانا دشمنی کی وجہ سے جاتا ہے اور وہ اس لئے کہ ہر دوست ممالک کو پہلے دوستی کے دلاسے دیتا ہے، فوجی اور دیگر امداد کے وعدے وعید کرتا ہے لیکن عین وقت پر پیٹھ دکھاتا ہے۔ یوکرائن اس کی اس بے وفائی کی تازہ ترین مثال ہے۔
لیکن یہ امریکہ پہلی بار نہیں کر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں روس امریکہ کا دوست تھا اور جرمنی کو شکست روس کی وجہ سے ہوئی لیکن بعد میں جب نازی ازم کا خاتمہ ہوا تو امریکہ نے روس کے خلاف سرد جنگ شروع کی اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا۔ رشیا کو مات دینے کے لئے تمام دنیا کے مسلم ممالک اور مسلمانوں کو سوویت یونین کے خلاف اپنا دوست، ان کے لوگوں کی ایک واضح اکثریت کو ”مجاہدین” بنایا اور سوویت یونین کی جنگ کو جہاد اور اہل کتاب اور غیراہل کتاب کی جنگ قرار دیا۔ لیکن جونہی سوویت یونین ٹوٹا تو سارے مجاہدین دہشت گرد کہلائے۔
اس سے پہلے ایرن، عراق جنگ میں امریکہ عراق کا ساتھ دیتا رہا اور سکڈ میزائل عراق کو بھیجتا اور بیچتا رہا لیکن جونہی آٹھ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا تو عراق کو کویت پر چڑھ دوڑنے کا کہا اور اسی کی پاداش میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سکڈ میزائل جو عراق کو دیئے تھے، اور جس پر عراق بڑا اترا رہا تھا، اس جنگ میں پیٹریاٹ میزائل کے زریعے ان کی اکثریت کو ناکارہ بنا دیا۔
لیبیا کے معمر قذافی کو بھی امریکہ کی دوستی پر ناز تھا لیکن یہ ناز بھی امریکہ کے محاذ کا نشانہ بنا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ طالبان یا سابقہ مجاہدین کو سبق سکھانے اور افغانیوں کو ان کے چنگل سے چھڑانے کے لئے بزور شمشیر افغانستان میں وارد ہوا۔ پورے بیس سال افغانستان میں رہا لیکن جس کے خلاف آیا تھا ان ہی سے مذاکرات کر کے افغانیوں کو بے یار و مددگار چھوڑا اور جس واقعے کو بہانہ بنا کر آیا تھا اس ہی واقعے کے نقصانات اور مرنے والوں کے عوض افغانیوں کے منجمد پیسے ان ہی کے لئے ضبط کئے۔ امریکہ کی آمد کے وقت جو افغانی لقمہ اجل بنے ان کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
اس سے پہلے ہم نے بھی اپنی باری پر امریکہ کے بحری بیڑے کا شدت سے انتظار کیا تھا لیکن وہ ابھی تک راستے میں ہے۔
جنوبی کوریا اور تائیوان بھی امریکہ کی یاری کے طفیل اپنے مونچھوں کو تاؤ دے رہے ہیں لیکن ابھی ان پر امریکہ کے آزمانے کا وقت نہیں آیا۔
یوکرائن کو بھی امریکہ اور یورپ ہر بڑا اعتماد تھا۔ ایک وقت تھا کہ یوکرائن نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تھی لیکن اس کو یورپ یونین میں شامل کرانے اور اقتصادی طاقت بننے کے عوض ایٹمی صلاحیت رول بیک کرنا پڑی۔ یوکرائن نے روس کے چنگل سے نکلنے کے لئے یورپی یونین اور امریکہ کی یاری دوستی اپنائی اور امریکہ اور یورپ پر تکیہ کیا اور اس حد تک کہ ہر وہ بات جو روس سے متعلق ہوتی اس کی نفی اور ہر وہ بات جو یورپ اور امریک سے وابستہ ہوتی اسے مثبت گرداننا اپنا فرض منصبی سمجھتا، جس کی پاداش میں آج یوکرائن کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔
اب جب یوکرائن روس کی جارحیت کے سبب آگ اور خون میں لت پت اور ہر طرف تباہی ہی تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے تو امریکہ اور یورپ نے اس کے ساتھ براہ راست فوجی امداد سے منہ موڑ لیا البتہ کاروباری طور پر امداد کے نام پر یا امداد کے عوض میزائل شکن توپ اور سٹنگر میزائل اور دیگر حربی آلات دینے اور مزید روس کے ساتھ جنگ میں لڑانے یا روس کو یوکرائن کے ساتھ الجھانے کے حربے ضرور استعمال کر رہے ہیں۔
اب یوکرائن کو بھی پتہ چل چکا ہو گا۔ تب ہی تو آخری خبریں آنے تک روس کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوا ہے لیکن روس پہلے ہتھیار ڈالنے کی شرط رکھ رہا ہے۔ جنگ میں کوئی بھی فریق کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتا ہے اور اگر ایسے موقعے پر یوکرائن ہتھتیار ڈال دے گا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روس کا ماتحت یا اس کے زیراثر بھی آ سکتا ہے کیونکہ روس نے بڑا سوچ سمجھ کر یوکرائن پر حملہ کیا ہو گا، صرف زبانی جمع خرچ کے لئے نہیں۔
یوکرائن کو تو سبق مل گیا اب جنوبی کوریا اور تائیوان کو بھی اس سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔ امریکہ کی دوستی یا امریکہ پر تکیہ کرنے کے بارے میں ثاقب لکھنوی نے بہت پہلے کہا تھا کہ: ع
باغبان نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے (ثاقب لکھنوی)