ڈاکٹر سردار جمال
بحیثیت قوم تو ہمارا حافظہ ہر ایک کا کمزور ہے لیکن سیاستدان اس بارے قابل رحم ہیں۔ چونکہ سیاستدان اس معاشرے کے لوگ ہیں اس لئے ان حضرات کی یاداشت قدرے زیادہ کمزور ہے۔ سیاستدان جب اقتدار میں آ جاتے ہیں تو ان کو اتنی ساری مراعات دی جاتی ہیں کہ وہ غنودگی کے عالم میں چلے جاتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ تاقیامت یہ دنیا اور ان میں بسنے والے عوام اور یہ نوکر چاکر ان کی انگلی کے اشارے پر اٹھتے بیٹھیں گے۔ مگر یہ خیالی پلاؤ بہت جلد زہر میں تبدیل ہو کر عیاش پرستوں کے لئے لقمہ اجل بن جاتا ہے اور ان حضرات کو اس دنیا فانی سے بہت ذلالت کے ساتھ رخصت کر دیتا ہے۔
ویسے تو تقربباً تمام کے تمام پاکستانی سیاستدان تکبر اور غرور کی حالت میں تخت شاہی سے عیاشی خوابیدگی کی حالت میں رخصت کر دیئے گئے ہیں مگر محترم ذوالفقار علی بھٹو کو جس قسم کی خوش فہمی کی حالت میں تختہ دار تک گھسیٹا گیا تو وہ سب کچھ ان کی اداکارانہ سیاست کی ایک کڑی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ان کو اونچا اڑانے کے لئے کیا جا رہا ہے، ان کو کیا پتہ تھا کہ اس بار ڈرامہ اور اس کے تمام کردار سچے اور پکے ہیں۔ وہ ہاتھ اٹھا کر انگلی ہلا کر بولا کرتے تھے کہ میرا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ہے کیونکہ میں ایک مشہور سیاست دان ہوں۔ اگرچہ بقول ولی خان بابا کے بھٹو صاحب سیاست دان تھوڑے جبکہ اداکار زیادہ تھے۔
ولی خان بابا نے اپنی کتاب "باچا خان او خدائی خدمتگاری” میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب فٹ بال کا وہ عجیب کھلاڑی ہے جو اکیلے میچ کھیل رہا ہے جس میں وہ خود کھلاڑی بھی ہے، کپتان بھی خود ہے اور ریفری بھی خود ہی ہے اور چونکہ وہ میدان میں کوئی اور کھلاڑی اپنے پاس نہیں چھوڑتا لہذا وہ بال اٹھا کر مخالف پول میں پھینکتا ہے اور پھر تالیاں بجا کر گول کی خوشیاں مناتا ہے۔
بھٹو صاحب پھانسی کی سزا سنتے وقت بھی مطمئن رہے کیونکہ وہ اس وقت بھی ڈرامائی دنیا میں رہ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اخری وقت میں ایک مولوی صاحب بھٹو کی آخری عبادت کے لئے مصلٰی اور تسبیح لے کر آیا۔ بھٹو نے تسبیح گلے میں ڈال لی اور مولوی سے کہا کہ وہ مصلٰی لے کر وہاں سے چلا جائے کیونکہ اسے اپنے خالق سے ملنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب کچھ تھوڑا بہت ہوش آیا تو ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ گدے پر لیٹ گئے۔ ان پر ایک قسم کا کومہ طاری ہو گیا تھا۔ جب سزا کا وقت قریب آیا تو جیل کے دوسرے قیدیوں کو جگا دیا گیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں۔ بھٹو ہر شے سے لاپرواہ تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے جیل حکام بھٹو کو پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے آئے۔ ان کے ساتھ ایک مجسٹریٹ اور ڈاکٹر بھی تھا۔ سپرانٹنڈنٹ نے انہیں ہلاتے ہوئے کہا "بھٹو صاحب! جانے کا وقت آ گیا ہے۔”
جونہی انہوں نے ہتھکڑیاں تھامے لوگوں کو دیکھا تو وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مہلت لینے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ نہانا، وصیت لکھنا اور چائے کا ایک کپ پینا چاہتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو شائستگی کے ساتھ رد کر دیا گیا یہاں تک کہ انہوں نے اٹھنے سے انکا کر دیا کیونکہ وہ اٹھنے کے قابل نہیں تھے۔ ان کے پیروں سے دم نکلا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں سٹریچر پر لے جانا پڑا۔ سزائے موت پانے والوں کے ہاتھ اس آخری سفر کے دوران ان کی پیٹھ پر ہتھکڑیوں سے بندھے ہوتے ہیں تاہم چونکہ بھٹو پیٹھ کے بل پڑے تھے اس لئے ان کے ہاتھ سامنے لا کر ہتھکڑیوں سے باندھے گئے تھے اور ٹھیک ایک بج کر پنتالیس منٹ پر پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیئے گئے، تارا مسیح ان کے منہ پر سیاہ نقاب چڑھانے لگا تو بھٹو کے ہونٹ ہلے۔ ایک بیان کے مطابق انہوں نے کہا تھا "Finish it” دوسرے بیان کے مطابق ان کے ہونٹ ہلے تو تھے لیکن آواز کوئی نہیں نکلی تھی۔