ماخام خٹک
ساری دنیا اِس بات پر متفق ہے کہ ماں کی گود بچے کی اولین درسگاہ ہے اور کسی بھی درسگاہ کا میڈیم متعین ہوتا ہے۔ کوئی بھی درسگاہ آپ لے لیں اِس کے باہر جو سائن بورڈ لگا ہوا ہوتا ہے وہاں لکھا ہوا ہوتا ہے فلاں "میڈیم!” اب اگر یہ بات طے ہو کہ یہ ادارہ یا درسگاہ کسی خاص زبان کے لئے مختص ہے اور اس ادارے کے بچے یا بچوں کو کسی اور زبان میں درس دیا جاتا ہو تو ایسے عمل کو کیا نام دیں گے؟ آیا اسے غلط فہمی کہیں گے، آیا اسے لسانی امتیاز کہیں گے، آیا اسے جبریہ کسی دوسری زبان کا نافذ کردہ تسلط کہیں گے، آیا اسے قدرتی انصاف کی خلاف ورزی کہیں گے، آیا اسے بین الاقوامی انسانی حقوق سے روگردانی کہیں گے، آیا اسے آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہیں گے، آیا اسے مقامی قوانین کی خلاف ورزی کہیں گے، آیا اسے اخلاقی اور سماجی اقتدار کی کھلم کھلا بغاوت کہیں گے یا آیا اسے دھوکہ یا فراڈ کہیں گے کہ ایک درسگاہ پر پڑھانے کا سائن بورڈ تو کسی اور زبان کا ہو اور اس میں پڑھائی کوئی اور زبان جاتی ہو، کوئی نہ کوئی نقطہ تو مندرجہ بالا خلاف ورزیوں میں سے درست ہو گا کیونکہ کوئی بات حتمی طور پر نہ مکمل غلط ہو سکتی ہے اور نہ درست!
پھر یہ بھی ہے کہ جب یہ مان لیا گیا ہو کہ ماں کی گود اولین درسگاہ ہے اور اس میں وہی زبان بولی جائے جو ماں کی ہو تو پھر اس درسگاہ کا نصاب بھی اسی زبان میں ہونا چاہئے نہ کہ کسی اور زبان میں کیونکہ ماں کی زبان میں نصاب نہ ہونے سے بچہ ابتدائی ایام سے اجنبیت کے احساس کا شکار ہونے لگتا ہے اور وہ پھر مادری زبان کے علاوہ ان زبانوں کا نفسیاتی طور پر معتقد ہوتا ہے جس میں اس نے بولنا، سننا اور سمجھنا سیکھا ہو۔ پھر ہم ایک بچے کو خودداری، حمیت، اپنی زبان، اپنی مٹی، اپنی ثقافت، اپنی تہذیب، اپنے ملک، اپنے وطن سے پیار اور وفاداری پر کیسے قائل کریں گے؟
میں یہ بتاتا چلوں کہ میں کسی بھی زبان کے سیکھنے کا مخالف نہیں ہوں، بچے کو سب زبانیں آنی چاہئیں، سب علوم سیکھنے چاہئیں لیکن سب سے پہلے اپنی زبان پھر دیگر زبانیں، بقول شاعر: ع
اول خپلہ ژبہ پس تہ نورے ژبے
بے بنیادہ عمارت خو سمون نہ کا
ترجمہ (پہلے اپنی زبان بعد میں اور زبانیں، بنیاد کے بغیر کوئی بھی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ یا یہ کہ
نورے ژبے زدہ کول کہ لوئے کمال دے
خپلہ ژبہ ہیرول بے کمالی دہ
ترجمہ (دیگر زبانیں سیکھنا اگر کمال کی بات ہے تو اپنی زبان کو بھولنا بے کمالی ہے۔)
ایک شاعر تو اپنی مادری زبان پشتو سے محبت میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ: ع
زناور کہ پہ خبرو پوھیدلے
ازمرے بہ پہ پختو ژبہ گویا وو
ترجمہ: (جانور اگر حیوان ناطق ہوتے تو شیر پشتو زبان میں بولتے) تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ دنیا کی تمام زبانیں سیکھیں، دنیا کے تمام علوم سیکھیں لیکن پہلے اپنی زبان! اس کی وجہ ہے، دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں اگر انہوں نے ترقی کی ہے تو اپنی مادری زبانوں میں رائج طریقہ تعلیم کے طفیل نہ کہ دیگر اقوام کی بولیوں یا زبانوں کے سہارے! انگریز اگر ساری دنیا پر حکمرانی اپنی زبان کی وجہ سے کر رہے ہیں تو اپنی زبان کو بنیاد بنانے کے سبب، جاپان اگر مشرق سے اٹھا اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوب میں مغرب، شمال اور جنوب تک پھیلا تو جاپانی زبان کی بنیاد پر، کوریا اگر اپنی شناخت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوا تو اپنی مادری زبان کی وجہ سے نہ کہ کسی اور کی زبان کی بیساکھیوں پر! تائیوان اگر اپنی مصنوعات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے تو اپنی زبان کی وجہ سے، فرانس اگر سپرپاور ہے تو اپنی فرنچ زبان کی وجہ سے، جرمن، اٹلی، ہالینڈ، بلجیئم، سپین، سکینڈینیوین ممالک حتی کہ چھوٹا سا چیک ریپبلک بھی اپنی زبان کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی مادری زبان میں تعلیم اور روزگار چلا رہے ہیں۔ روس اگر روس ہے تو اپنی زبان کی بنیاد پر، عرب اور پرشیا میں اپنی زبانوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ امریکہ اگر اکلوتا سپرپاور ہے تو اپنی زبان کے بل بوتے پر گو کہ امریکہ نے بریٹش انگلش کا حلیہ بگاڑا پر چھوڑا نہیں۔ اور، اور چائنا اگر آنے والی معاشی عالمی طاقت بننے جا رہا ہے تو اپنی مادری زبان کے طفیل!
اب مجھے کوئی یہ منطق سمجھائے کہ اگر یہ سب اقوام اپنی اپنی زبانوں میں ترقی کے مدارج طے کر چکی ہیں تو ہم کس بنیاد پر اپنی مادری زبانوں پر قدغن لگا رہے ہیں یا ان مادری زبابوں کو آگے لانے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کر رہے ہیں؟
اصل میں ہمارا مسئلہ دیگر ہے۔ ہم اس شخص سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو انگلش کو انگلش ٹون میں بولتا ہو، جو ٹائی کوٹ اور انگلش ہیٹ پہنتا ہو، ہم سمجتھے ہیں یہ بڑا ایڈوانس بندہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزوں کے رہے ہیں غلام اور غلام کو اپنے آقا کی ہر چیز بھلی لگتی ہے۔
اب اگر ہم اس غلامی والی ذہنیت کو ذرہ جھنجھوڑیں اور بہ ہوش و حواس سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی قباحت پیش نہیں ہو گی کہ انگریزی کو بالکل اسی طرح ایک زبان سمجھنے لگیں گے جیسے ہماری مادری زبان ہے۔ جیسے ہماری مادری زبان ہم سیکھتے ہیں ویسے وہ لوگ بھی اپنی مادری زبان سیکھتے ہیں، جیسے ہمیں ہماری مائیں اپنی مادری زبان میں لوریاں سناتی ہیں ان کو بھی اپنی ریت اور رسم رواج کی طرح مائیں لوریاں سناتی ہوں گی۔ ہمارے ہاں جیسے بچے اور ناسمجھ لوگ ہماری بولی بولتے ہیں ادھر بھی بچے اور ناسمجھ لوگ انگریزی میں ہی باتیں کرتے ہیں۔جیسے ہماری مادری زبان میں پاگل یا ذہنی معذور باتیں کرتے ہیں وہاں بھی پاگل اور ذہنی معذور انگریزی ہی میں بولتے ہیں اس لئے انگریزی کو اس لحاظ سے فوقیت نہیں ہے، ہاں اگر فوقیت ہے تو وہ ان کی اپنی زبان سے پیار، محنت، مارکیٹ میں رائج کرنے، اس کو عالمی سطح پر عزت اور تکریم دینے سے ہے۔
رشیا کے صدر کو انگلش آتی یے، چائنا کے صدر انگریزی جانتے ہیں، ایران کے صدر اور عرب فرمانروا انگریزی خوب جانتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زبانیں گونگی نہیں، وہ بھی بولنے کی سکت رکھتی ہیں۔ اگر وہ بولنے کی سکت رکھتی ہیں تو اگلے کو بھی ان کے سننے اور سمجھنے کی سکت رکھنی چاہئے۔
ہمارے انیس سو تہتر کے آئین میں چار قوموں کو ڈیفائن کیا گیا ہے اور چار قوموں سے ملک کی شناخت ہے۔ اب لازمی بات ہے جب چار قوموں کی شناخت ہے تو ان چار قوموں کی اپنی اپنی ثقافت اور زبانیں بھی ہیں اور یہ اگر قوم مانے گئے ہیں تو ان کی زبانیں بھی قومی ہیں نہ کہ علاقائی زبانیں، علاقائی زبانیں بھی ہیں اس سے بھی انکار نہیں لیکن یہ علاقائی زبانیں ہیں جو ان قوموں کے زیراثر علاقوں میں بولی جاتی ہیں، ان کی اپنی کسی مخصوص قوم کی حیثیت سے کوئی شناخت نہیں ہے۔
ہر سال اکیس فروری مادری زبانوں کے دن کے طور پر یونیسکو کی طرف سے منایا جاتا ہے جس کی قرارداد پہلی بار سن انیس سو ننانوے میں یونائیٹڈ نیشن میں پیش کی گئی تھی اور سن دو ہزار میں منظور ہوئی تھی۔ تب سے اب تک یہ دن مادری زبانوں کے حوالے سے منایا جاتا ہے جس کا سہرا نن بنگالی طالب علموں کے سر ہے جنہوں نے بنگلہ زبان کو سرکاری زبان منوانے کے لئے جلوس نکالا تھا اور اپنی مادری زبان کی شناخت کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔