سیاستکالم

پٹرول کی چھترول اور عوام کا لاغر وجود

 

ماخام خٹک

پٹرول پھر مہنگا ہو گیا یہ خبر سے زیادہ عوام پر ایک خوفناک حملہ ہوتا ہے جس کے ہونے یا سننے کے بعد سامع حواس باختہ ہو جاتا ہے، کچھ لمحے کے لئے وہ ہوش و حواس میں نہیں رہتا لیکن جوں جوں اس حملے کی دھول چھٹنا شروع ہوتی ہے توں توں اس کے آثار دکھنا بھی ظاہر ہوتے ہیں پٹرول کے نرخ کا بڑھنا عوام کے لئے ایک تازیانے، کوڑے، اور چھترول کی طرح لگتا ہے جس کی ہائے وائے اور ردعمل روزمرہ چال چلن کے علاوہ سوشل اور جنرل میڈیا پر بھی سنائی دیتا ہے، اگر سنائی نہیں دیتا تو ان کو جنہوں نے یہ تازیانہ، یہ کوڑا اور یہ چھترول چلایا اور کیا ہوا ہوتا ہےـ

معاش کسی بھی فرد، کسی بھی گھر، کسی بھی ملک کے چلانے کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ اگر کوئی فرد معاشی طور پر آزاد اور آسودہ حال ہو تو وہ نہ صرف ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے فیصلوں میں بھی آزاد اور ساؤنڈ ہوتا ہےـ یہی حال کسی ملک کا بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ معاشی طور پر آسودہ حال اور آزاد ہو تو وہ فیصلوں میں بھی آزاد اور ساؤنڈ ہو گاـ لیکن ایک ہم ہیں کہ آئے دن مالی فیصلوں کے حوالے سے فیصلے بدلتے رہتے ہیں اور آئے دن منی بجٹ لاتے رہتے ہیں جس کی وجہ ہماری معاشی طور پر ناآسودگی، ناہمواری اور آزاد نہ ہونا ہوتی ہےـ ہم پہلے بھی سیاسی اور معاشی فیصلوں میں آزاد اور خودمختار نہیں تھے، سٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کے زیر نگیں کر کے رہی سہی خودمختاری کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ اب یوں سمجھیے کہ ہمارے صد فیصد معاشی اور سیاسی فیصلے یہی معاشی ادارہ کرے گا اور سیاسی فیصلے کا میں نے اس لئے لکھا کہ جو بھی ملک معاشی طور پر آزاد نہ ہو اس کے سیاسی فیصلے بھی آزاد نہیں ہوتے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جس دن یا جس رات بارہ بجے کے بعد پٹرول پورے بارہ روپے فی لیٹر بڑھایا گیا ہے اس دن، رات نو بجے کی خبروں میں بتایا گیا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گر گئی ہیںـ اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کتنے غیرمنصوبہ ساز، عجلت پسند اور ڈکٹیٹڈ لوگ ہیں۔ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو عالمی منڈی میں قیمتوں کی اٹھان کا راگ الاپتے ہیں لیکن جب وہی قیمتیں گرتی ہیں تو اہل ثروت و جلوت، اہل دربار و اقتدار چپ سادھ لیتے ہیں یعنی ہم پر عالمی طور پر پٹرول بڑھنے کے ضابطے تو لاگو ہیں لیکن بڑھنے کی حد تک، اگر وہ کم ہو جائیں تو پھر وہ ضابطے ہم ہر منطبق نہیں ہوتے۔ اب آپ بتائیں اس طرز عمل کو اس جدید دور کی جدید ذہنی، جسمانی، سیاسی اور معاشی غلامی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟

اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ میں کوئی انکشاف نہیں کر رہا یہ عام آدمی پر بھی منکشف ہے کہ جب پٹرول کا نرخ بڑھتا ہے تو سب چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا دارومدار آمدورفت کے زرائع پر ہوتا ہے اور آمدورفت کے زرائعوں کا دارومدار پٹرول پر، جب پٹرول بڑھتا ہے تو آمدورفت کے زرائع یعنی کرائے بھی بڑھتے ہیں اور جب کرائے بڑھتے ہیں تو پھر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی بڑھتی ہیں اور جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو معاشرے کو شدید قسم کی انفلیشن یا افراط زر کا سامنا شروع ہو جاتا یے جس سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور جب قوت خرید کم ہوتی ہے تو یہ طلب و رسد کا مسئلہ بن جاتا یے جو معاشیات کے پہلے بنیادی اصول کے عین ٹاکرے میں آ جاتا ہے۔ اس سے بہت سارے غلط راستے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں ذخیرہ اندوزی جس کا سب سے پہلہ عنصر ہے۔

اس کے علاوہ ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، اشیائے خوردونوش و ملبوسات و پوشاک میں افراط و تفریط، دو نمبری، دھوکہ، غلط بیانی، عدم اعتماد، رویوں میں تضاد، رشتوں میں کمزوری اور ناہمواری، سماجی میل ملاپ میں جمود، پیسوں کی گردش میں رکاوٹ، سٹیٹس کو میں حد فاصل، اخلاقی، سماجی پستی، بازاری خو اور پروفشنلزم سے زیادہ کمرشلزم کی طرف جھکاؤ بڑھ جاتا ہے جس کے آج ہم من حیث القوم نہ صرف مرتکب ہوئے ہیں بلکہ اس کو بھگت بھی رہے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button