ماخام خٹک
ہم نے بینک میں پیسوں کے نوٹ یا نوٹوں کی گڈیا دیکھی ہیں، ہم نے بینک میں پیسوں کے نوٹ گنتے ہوئے دیکھے ہیں، ہم نے بینک سے پیسوں کے نوٹوں کی گڈیا نکلتے ہوئے دیکھی ہیں۔ ہم نے اے ٹی ایم مشین سے پیسوں کے نوٹ نکلتے ہوئے دیکھے ہیں۔
ہم نے عید، شادی بیاہ، کاروباری لین دین، بیوپار، محفل موسیقی، ناچ گانے، محفل سماع، محفل نعت و برکات میں نوٹوں کی بارش اور ان نوٹوں کی بوندا باندی، موسلادھاری اور حتی کہ اولے بھی پڑتے ہوئے دیکھے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا یا پھر پہلی بار دیکھا کہ ایک بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کے پہنے ہوئے شلوار قمیص کی جیبوں، اس کے جسم سے بندھے ہوئے اس کے واسکٹ کی جیبوں اور اس کے لباس، جسم سے لپٹے یا چپکے ہوئے نوٹ کے نوٹ اور نوٹوں کی گڈیاں نکل رہی ہوں اور اس نوٹوں یا نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلے یا شاپر بھرے جا رہے ہوں اور وہ نوٹ یا گڈیاں لاکھوں کی تعداد میں ہوں۔ لوگ ان کے اردگرد کھڑے ہوں، کوئی ویڈیو بنا رہا ہو، کوئی تبصرہ کر رہاہ و، کوئی تصویریں بنا رہا ہو، کوئی ہنس رہا ہو، کوئی مذاق اڑا رہا ہو، کوئی استغفار اور لاحول کا ورد کر رہا ہو۔ اور ان نوٹوں اور گڈیوں کا مالک پھر بھی بھیک منگا، فقیر، گداگر اور ملنگ کہلائے تو تعجب تو ہو گا اور کیونکر تعجب نہیں ہو گا۔
امر واقع یہ ہے کہ ایک فقیر ٹریفک حادثے میں زخمی ہو جاتا ہے، لوگ اس کو ہسپتال لے آتے ہیں اور ہسپتال میں جب ان کو علاج معالجے کے لئے بیڈ پر لٹا دیا جاتا ہے اور اس کی پہنی ہوئی واسکٹ اور قمیض جب مدد کرنے والے افراد کی موجودگی میں ہسپتال کا عملہ اتار رہا ہوتا ہے تو اس دوران فقیر کے واسکٹ، قمیص اور جسم سے نوٹ ہی نوٹ نکل رہے ہوتے ہیں اور ان نوٹوں کو تھیلے یا شاپر میں ڈالا جاتا رہا ہوتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رقم اکیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر جب خبر نکلتی ہے کہ ایک فقیر سے اکیس لاکھ روپے کی جمع پونجی نکلی ہے تو یہ ایک حیران کن اور تعجب خیز خبر ضرور ہوتی ہے کیونکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس شخص کو غریب کہا جا سکتا ہے جس کی ملکیت میں اکیس لاکھ روپے نقد پڑے ہوں اور وہ بھی کسی بینک میں نہیں اس کے جسم، کپڑوں اور واسکٹ میں موجود ہوں۔
فقیر یا حاجت مند اس وقت تک فقیر اور حاجت مند ہوتا ہے جب تک ان کی حاجت پوری نہیں ہوتی یا پھر اس وقت تک فقیر رہتا یے جب تک اس کے پاس پہننے اور اوڑھنے کے لئے کچھ دستیاب نہیں ہوتا. اور اگر کوئی بھی شخص حاجت پورا ہونے کے بعد یا فقیر نہ رہنے کے بعد بھی فقیر بنتا ہے اور اس چال سے لوگوں سے پیسہ بٹورتا ہے تو یہ فراڈ کہلاتا ہے اور فراڈ کے زریعے پیسہ اکٹھا کر رہا ہوتا ہے۔
ایسے شخص پر معاشرتی یا اخلاقی دباؤ کے علاوہ فراڈ کا کیس اور فراڈ کے عمل سے پیسہ اکٹھے ہونے پر نیب کا کیس بھی بنتا ہے اور اس آمدن کا اس کو منی ٹریل دینا ہو گا جیسے ہمارے سیاستداں عوام کے پیسے فراڈ سے بٹورتے ہیں اور پھر ان پر نیب کیس بنتا ہے اور وہ منی ٹریل دیتے ہیں۔ اب تک کئی لوگوں نے پلی بارگیننگ کر کے نیب کو پیسے واپس بھی کئے ہیں جو کہ ایک طرح سے جرم ماننے کے بھی مترادف ہے جن میں ایڈمرل منصور الحق اب تک سرفہرست ہیں۔
بلوچستان کے ایک سیکرٹری خزانہ کے گھر سے بھی اس فقیر کی طرح نوٹ اور سونے کے بسکٹ برآمد ہوئے تھے لیکن اس نے جیبوں اور واسکٹ کے بجائے بکسوں میں یہ نوٹ اور سونے کے بسکٹ بھر کر رکھے تھے۔ اسی طرح حال ہی میں کراچی کی ایک مقامی حکومت کے ایک ملازم کے گھر سے بھی اسی طرح پیسے نکلے تھے یا پھر جو ماضی قریب میں کسی سبزی والے، کسی پکوڑے والے، کسی چائے والے اور کسی جھاڑو والے کے اکاؤنٹ سے اربوں روہے نکلے تھے اور ان کا کوئی مالک سالک معلو نہیں تھا یا پھر نامعلوم افراد کی اصطلاع کی طرح سب معلوم تھے۔
اب ادھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم فقیر کے اس ویڈیو کلپ کو بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ ہمارا تو آئے دن اس طرح کے فقیروں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فقیر اس مال کو فقیر کے لباس میں یا دوسرے لفظوں میں اس بھیس میں آ کر خود کو اس قابل بناتا ہے کہ لوگ اس کو خیرات اور زکوة دیں لیکن جو ہماری اشرافیہ کر رہی ہے وہ تو سفید لباس اور شریف، معزز اور اعلی و بالا طبقے یا گریڈ کا بندہ بن کر ہمارے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو دونوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں اپنے اپنے ناموں کے بینک بیلنس نہیں رکھتے، ایک دوستوں اور ملازمینوں کے نام بینک اکاونٹ میں پیسے جمع کراتے ہیں اور دوسرے اپنے قمیص اور واسکٹ کی جیبوں میں پیسے سٹور کر کے فریز کرتے ہیں۔