تالی تو تم بھی بجاتے ہو۔۔۔ ایک خواجہ سرا کا شکوؤں بھرا جواب
ماخام خٹک
ایک خواجہ سرا کا شکوؤں بھرا جواب سن کر میں نے بھی اپنے آپ میں، اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کی کیونکہ یہ پروگرام میں نے بھی دیکھا تھا۔ جب یہ پروگرام ایک نجی چینل پر نشر ہو رہا تھا اور اس پروگرام میں ملک کے جانے پہچانے اداکار اور اداکارائیں بیٹھی ہوئی تھیں اور موضوع بحث خواجہ سرا تھے۔ یہ موضوع مذاق مذاق میں خواجہ سراؤں کے طور اطوار تک سرائیت کر گیا اور ایک قسم کی ان کے طور طریقوں، اشاروں، کنایوں اور بول چال کی نقل اتارنے تک بات پہنچ گئی۔
گو کہ اس پروگرام میں شامل ان افراد کا کوئی مقصد کسی کو زچ پہنچانا یا توہین کرنا نہیں تھا بس ایک تفریح کا ماحول بن گیا اور جس کو جتنا خواجہ سراہوں کی حرکات، سکنات، اشاروں اور کنایوں کا پتہ تھا اس نے ان کے انداز میں پیش کیاـ لیکن جب میں نے سوشل میڈیا پر ایک پکی عمر کے ایک خواجہ سرا جسے اصطلاح عام میں گرو کہا جاتا ہے، ان کا اس پروگرام کے حوالے سے شکوؤں بھرا جواب سنا جو ہر بات ایک دلیل کے ساتھ اور مہذبانہ انداز سے پیش کر رہے تھے، اور اس پروگرام میں جو ان کے بارے میں کہا گیا تھا اصل میں اس کا برا منایا تھا لیکن جواب میں ایسی کوئی گری ہوئی بات نہیں کی جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا بلکہ اس انداز سے بات کی کہ نہ صرف اپنی ساکھ کو بلند کیا بلکہ میری طرح اس پروگرام کے سننے والوں کو شرمندہ بھی کیا اور اس پروگرام کے پروڈیوسر، ہدایت کار اور شامل افراد کو بھی لازمی شرمندہ کیا ہو گا۔
ان کا کہنا یہ تھا کہ تم نے ہمیشہ ہمیں ہیجڑا، کھسرا، تیسری جنس، مخنث، زنخے، خواجہ سرا، محلی وغیرہ کے ناموں سے پکارا ہے لیکن ہم نے آپ کو صرف اور صرف مرد اور عورت کے ناموں سے عزت بخشی ہے۔ مطلب وہ بین السطور یا بین البیان کہنا چاہ رہے تھے کہ ہماری طرح کمی بیشی آپ لوگوں میں بھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہم آپ کو مرد اور عورت ہی پکارتے ہیں یعنی اگر مرد میں مرد کی اصل صلاحیت ناپید یا کمزور ہو اور وہ اپنے فنکشن یا فرائض احسن طریقے سے ادا نہیں کر سکتا تو کیا پھر بھی وہ مرد ہی کہلائے گا؟
یا اگر عورت میں عورت کی صنفی صلاحیت ہی نہ ہو یا وہ عورتوں والے فرائض ہی نبھا نہیں سکتی ہو تو پھر بھی عورت کہلائے گی جب تک کہ خدانخواستہ ان کی (خواجہ سراؤں) کی طرح دونوں مرد یا زن جامہ زیبی یا طور طریقے نہ اپنائیں۔ انہوں نے یہ بھی گلہ یا شکوہ کیا کہ تم کسی کو اگر پیار سے بلاتے ہو تو محبوب، یار یا اشنا بولتے ہو اگر ہم اپنے مخصوص الفاظ بولتے ہیں تو کیا یہ مزاح کی بات ہے؟ تم لوگ بھی تو پلس مائنس اور مائنس پلس ہوتے ہو یا تم لوگ بھی تو پلس پلس یا مائنس مائنس ہوتے ہو پھر بھی ہم آپ کو عورت اور مرد کے ناموں سے پکارتے ہیں، کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری طرح گھر بار چھوڑ کر کسی گرو کے زیر نگیں آ جاؤ تب آپ کو ہمارے ناموں سے پکارا جائے۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ تم لوگوں نے اس پروگرام میں ہمارے تالی بجانے کے عمل کو مذاق بنایا تو کیا آپ لوگ تالیاں نہیں بجاتے؟ آپ لوگ بھی تو خوشی یا کسی کے اچھے عمل اور کامیابی یا خوشی یا داد دینے پر تالیاں بجاتے ہو، کیا ان تالیوں کی آواز ہماری تالیوں سے الگ ہوتی ہے، کیا وہ تالی آپ لوگ ایک ہاتھ سے بجاتے ہیں، کیا وہ تالیاں آپ جب بجاتے ہیں تو ہم لوگوں کو خیال میں یا سوچ میں لاتے ہیں دیگر کاموں کی طرح کہ یہ تو کھسرے کرتے ہیں یہ نہیں کرنا چاہئے جب کہ اس وقت آپ تالیاں بجانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، ان تالیوں کی گونج اور آوازوں سے لطف اٹھاتے اور فخر محسوس کرتے ہیں اور ہماری ہی طرح دونوں ہاتھوں سے بجاتے ہیں اور ہماری طرح آواز بھی ان تالیوں سے نکالتے ہیں اور پھر بھی ہم آپ کو مرد اور عورت ہی کے ناموں سے پکارتے ہیں، کیا کھسرا پکارنے کے لئے ہماری طرح طور اطوار یا گھر بار چھوڑنا اور کسی گرو یا خواجہ سراؤں کے کسی پاڑے میں شامل یا رہنا ضروری ہے؟
ویسے اگر دیکھا جائے تو بہت سارے کام ہم خواجہ سراؤں سے ملتے جلتے کرتے ہیں جیسے کہ ڈانس کرنا، جیسے کہ لمبے لمبے بال رکھنا، کان میں بالیاں پہننا، بالوں میں چوٹیاں باندھنا، رنگ برنگے کپڑے پہننا، رنگ برنگے جوتے یا چپل پہننا، ہاتھوں اور پاؤں میں کڑے پہننا وغیرہ وغیرہ لیکن ہم نے کبھی اس عمل سے خود کا مذاق اڑایا؟ بلکہ فیشن اور ماڈرنزم کی نذر کر دیا اور خود کو سماجی طور پر اوروں سے الگ اور اوروں سے ایڈوانس بھی سمجھا اور سمجھاتے رہے، اچھا ہوا اس خواجہ سرا نے یہ سب باتیں ہمیں نہیں سنائیں ورنہ ہم میں اور ان میں فرق صرف خواجہ اور خواجہ سراء کا رہتا، مزید کچھ نہیں۔