سیاستکالم

نواز شریف کس بلا کا نام ہے؟

انصار یوسفزئی

ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف صاحب پچھلے دو سالوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ یہ بیمار ہیں یا ایک ممکنہ ڈیل کی بدولت لندن میں قیام پذیر ہیں، میں حتمی طور پر اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ یہ ریاست، یہ حکومت اور اس کے رکھوالے آخر نواز شریف سے اتنے خوف زدہ کیوں ہیں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے اور یہ سوال میں اس لیے اٹھا رہا ہوں کیوں کہ پچھلے تین سالوں سے جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنائی گئی ہے، یہ لوگ کام کریں نا کریں، پالیسی سیٹ کریں نا کریں، ایک روڈ میپ تیار کریں نا کریں، عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں نا دیں مگر انہوں نے ہر پریس کانفرنس میں، ٹی وی ٹاک شو میں، پارلیمنٹ میں یا خواہ کوئی نجی محفل ہو، ایک بات ضرور کرنی ہے، یہ لوگ اپنی بات مکمل کرنے کیلئے نواز شریف کو درمیان میں ضرور لاتے ہیں۔ یہ حکومت، یہ وزیر اعظم اور اس کے وزراء ہر معاملے پر نواز شریف کو درمیان میں کیوں لاتے ہیں؟ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے اور اس کا جواب بھی بڑا ضروری ہے تاکہ قارئین، جو پہلے سے ہی بہت کچھ جان چکے ہیں مزید جان جائیں۔

کئی تاریخ دانوں کے بقول نواز شریف جب سیاست میں آئے اور اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی بن گئے تو کبھی کبھار اس وقت کے صدر اور ملک کی طاقتور ترین شخصیت ضیاء الحق بھی ان سے مرعوب ہو جاتے تھے اور ضیاء الحق بھی مشکل میں پڑ جاتے تھے کہ میں اب اس بندے کا کیا کروں؟ کیوں کہ ہٹاتے تو بھی بدنامی نہ ہٹاتے تب بھی بدنامی ضیاء الحق کے کھاتے میں آتی لیکن سندھ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے پیر صاحب پگاڑا ہر بار ضیاء الحق کی یہ مشکل حل کرانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ سینئر صحافی رؤف کلاسرا اپنی کتاب ”ایک سیاست کئی کہانیاں” میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب لندن کی کسی سڑک پر واک کر رہے تھے، میں نے یوسف رضا گیلانی صاحب سے پوچھا کہ زندگی میں کبھی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو، تو وہ کہنے لگے کہ "1985 میں جب میں سیاست کی بے رحم دنیا میں نیا نیا وارد ہوا تھا، میں نے ایک دن باتوں باتوں میں پیر صاحب پگاڑا سے پنجاب کا وزیر اعلی بننے کی خواہش ظاہر کی، یہ بات پیر صاحب پگاڑا کے ذہن میں بیٹھ گئی اور جب نواز شریف نے ضیاء الحق کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور پنجاب میں ان کیلئے درد سر بن گئے تو ضیاء الحق نے یہ بات پیر صاحب پگاڑا کے سامنے رکھی تو پیر صاحب پگاڑا نے مجھے کہا جاؤ اور پنجاب کے وزیر اعلی بننے کی تیاری کرو۔ میں اسلام آباد سے لاہور آیا، پیر صاحب پگاڑا کے پلان پر من و عن عمل کیا اور کئی ممبرز صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملا لیا اور لاہور سے پیر صاحب پگاڑا کو پیغام پہنچایا کہ آپ کا کام ہو گیا ہے میں نے ایک اچھی خاصی تعداد کو اپنے ساتھ ملا کر نواز شریف کی وزارت اعلی مشکل میں ڈال دی ہے مگر آگے سے مجھے جواب آیا آپ اسلام آباد واپس آ جائیں نواز شریف سدھر گیا ہے اور ضیاء الحق کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ میں اس دن سمجھ گیا میں سیاسی طور پر استعمال ہوا اور کچھ نہیں ہوا۔”

یوسف رضا گیلانی صاحب کے اس واقعے کو آپ کے سامنے رکھنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ صرف آج سے نہیں بلکہ شروع سے ہی نواز شریف سے خوف زدہ ہیں اور ہر بار یوسف رضا گیلانی کی طرح کوئی نہ کوئی کردار نواز شریف کے خلاف استعمال کرنے کیلئے ان کو مل ہی جاتا ہے جس سے ان کا خوف وقتی طور پر کچھ نہ کچھ کم ہو جاتا ہے مگر اس بار خوف اور ڈر کی جو علامت ہے وہ قابل حیرت ہے۔ 1999ء میں بھی یہ لوگ نواز شریف سے خوف زدہ ہوئے تھے مگر اس وقت نواز شریف نے ذاتی طور پر کچھ ایسی غلطیاں کیں جس کی وجہ سے نواز شریف مشکل میں چلے گئے تھے مگر اس بار معاملہ بالکل الگ ہے۔ اس بار ان لوگوں نے سب سے پہلے نواز شریف کا میڈیا ٹرائل کیا۔ میڈیا مالکان کو اپنے ساتھ ملا کر ان کو استعمال کر کے پبلک میں نواز شریف کی کردار کشی کی گئی، اس سے بات نہ بنی تو معزز عدالت میں ججز کو یرغمال بنا کر اس کے ذریعے ان کو تاحیات نااہل کروایا گیا۔ کیوں کہ یہ لوگ سمجھ رہے تھے نواز شریف اگر نااہل ہو گئے تو یہ پبلک میں آنے سے کتراتے رہیں گے لہٰذا اسی طرح ان کی گیم ختم ہو جائے گی مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، یہ گیم الٹ گئی وہ نااہل ہوئے تو زیادہ توانا اور طاقتور ہو کر میدان میں آ گئے اور ڈٹ کر کھڑے رہے اور خوب گراؤنڈ کی چاروں جانب کھیل رہے ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کے خوف اور ڈر میں مزید اضافہ ہوا کہ اب کیا ہو گا گیم تو الٹ گئی لہٰذا انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو استعمال کیا کہ عام انتخابات کے وقت نواز شریف کو اندر رکھنا ہے ورنہ ہماری ساری پلاننگ اور اسٹریٹجی ادھوری رہ جائے گی۔ ایسا ہی ہوا عام انتخابات کے وقت نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور یہ لوگ کسی طرح اپنے چہیتے کو لانے میں کامیاب ہو گئے۔

ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ان سب وارداتوں کے بعد بھی ان لوگوں کا خوف اور ڈر کم نہیں ہوا بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگا دی، پھر کہا گیا کہ ان کی کوئی خبر مین سٹریم میڈیا پر نہیں چلے گی مگر اس کے باوجود بھی یہ لوگ خوف اور ڈر کی سی کیفیت میں مبتلا رہے۔ مین سٹریم میڈیا سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف نے ہمت نہیں ہاری اور سوشل میڈیا پر ان لوگوں کا پیچھا جاری رکھا۔ اپنی ہر ایک تقریر میں غیرجمہوری لوگوں کی واردات عوام کے سامنے رکھتے رہیں مگر ان لوگوں کی جانب سے خوف اور ڈر کی انتہا اس وقت سامنے آئی جب ایک ہفتہ قبل لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران نواز شریف کی تقریر کے دوران ملک کے کئی اہم شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تاکہ نواز شریف کی تقریر کی ریچ کم رہے اور یہ محدود لوگوں تک جائے، زیادہ لوگ اس کو نہ دیکھیں۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اس طرح کے ہتھکنڈوں سے آپ نواز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا ایسا کرنے سے نواز شریف کی ساکھ متاثر ہو گی یا آپ کی؟ یقین کیجئے ایسا کرنے سے وقتی طور پر آپ نواز شریف کا راستہ بھی روک پائیں گے اور وقتی طور پر ان کی ساکھ بھی شائد اس سے متاثر ہو جائے مگر جس دن پوری حقیقت سامنے آئے گی، جو بہت حد تک آ بھی چکی ہے اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک اس کی صرف ایک جھلک ہے، تب نواز شریف ایک ہیرو اور آپ شکست خوردہ ہوں گے۔

دوسرے سوال کا جواب بھی بڑا ضروری ہے لہٰذا اس کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان، اس کے وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی کی ہر ایک تقریر، ہر خطاب اور ہر محفل نواز شریف کا نام لئے اور ان کا ذکر کئے بغیر مکمل کیوں نہ ہوتی؟ عمران خان اور ان کے اردگرد کے لوگ سب یہ سمجھتے ہیں جس دن انہوں نے اپنی کسی تقریر، تقریب اور محفل میں نواز شریف کا ذکر نہ کیا اس دن ان کی ویلیو ختم ہو جائے گی اور سیاست میں جس دن آپ کی ویلیو ختم ہو گئی اس دن آپ سیاست دان نہیں بس ایک مداری رہ جائیں گے لہٰذا یہ لوگ اپنے آپ کو مداری ہونے سے بچانے کیلئے دن رات نواز شریف کا ذکر کرتے ہیں اور اپنی سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کیلئے نواز شریف کو درمیان میں لاتے ہیں مگر یاد رکھیں ان لوگوں کا یہ ڈرامہ زیادہ دیر نہیں چلنے والا۔

انصار یوسفزئی اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ اس وقت بطور نمائندہ ایشیا فری پریس (اے ایف پی) سے وابستہ ہیں۔ یوسفزئی روزنامہ آئین پشاور، روزنامہ شہباز پشاور اور ڈیورنڈ ٹائمز کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور اور نمل اسلام آباد سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے.
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button