تنگ نظری، مزاحمت اور سیکولرزم
ساجد ٹکر
آج کل سوشل میڈیا اور دنیا کی مین سٹریم میڈیا پر انڈیا کی ایک باحجاب لڑکی کا غلغلہ ہے۔ ہر طرف اس کی واہ واہ ہو رہی ہے۔ کوئی اس لڑکی کو شاباش دے رہا ہے تو کوئی اس کو "شیرنی” کہہ کر پکار رہا ہے۔ کوئی اس کے عزم کو سراہ رہا ہے تو کوئی اس کی مزاحمت پر آفرین کہہ رہا ہے۔ کون ہے یہ لڑکی جس کی ایک آواز نے ساری دنیا میں دھوم مچا دی اور ساری دنیا اس کو داد دینے پر مجبور ہوگئی۔ کون ہے یہ لڑکی جس نے لتا منگیشکر جیسی لیجنڈری گلوکارہ کی موت کو بھی لوگوں سے بھلا دیا۔ کیا ہوا ایسا اس دن کہ مسکان خان ساری دنیا پر چھا گئیں۔
یہ بھارتی ریاست کرناٹک کی رہائشی مسکان خان ہیں جو کہ مہاتما گاندھی کالج کی طالبہ ہیں۔ واقعہ کے دن مسکان اپنا اسائنمنٹ جمع کرانے کالج پہنچ گئیں تو کچھ غنڈہ نما سٹوڈنٹس نے، جو کہ زعفرانی شالیں لئے پھر رہے تھے، ان کو ہراساں کرنا شروع کر دیا کہ وہ کیوں حجاب پہن کر کالج آئی ہیں۔ ان غنڈہ نما طلباء نے مسکان پر آوازیں کسیں اور پھر "جے شری رام” کے نعرے لگائے جس کے جواب میں مسکان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ کسی نے اس واقعہ کی ویڈیو بنا دی جو کہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر طرف "باحجاب لڑکی” کا شور اٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، ضروری ہے کہ تھوڑا سا پس منظر بھی پیش کیا جائے۔ دراصل پچھلے ڈیڑھ ایک ماہ سے کرناٹک ریاست میں مذہبی انتہا پسند ہندوؤں اور کچھ سٹوڈنٹس کی جانب سے حجاب کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے اور مسلمان لڑکیوں کو حجاب اوڑھنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ میں ان کو ڈرایا دھمکایا بھی جا رہا ہے اور چیتاونی دی جا رہی ہے کہ مسلم لڑکیاں حجاب پہن کر نہ آئیں ورنہ ان کو کالج میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔ کرناٹک کے ساتھ کئی اور ریاستوں میں بھی کچھ سٹوڈنٹس کی جانب سے لڑکیوں کو ایسے وارننگ دی جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ ایسے طلباء میں زعفرانی رنگ کے شال بھی مقبول ہو رہے ہیں جو کہ ہندو انتہا پسندوں کی نشانی مانی جاتی ہے۔ بہر حال، واقعہ کے دن جب مسکان موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کالج پہنچیں تو کچھ غنڈہ نما طلباء نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، ان پر جملے کسے اور اپنے مذہبی نعرے لگائے۔ اس سب کے جواب میں مسکان اکیلے آگے بڑھتی رہیں اور غنڈوں کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ غنڈہ نما سٹوڈنٹس نے مسکان کا پیچھا کیا، ان کو ہراساں کرتے رہے لیکن وہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں اور اپنا اسائنمنٹ جمع کرانے کے لئے متعلقہ ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوگئیں۔ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں کیونکہ اس کو دیکھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ انڈیا میں تنگ نظری اور ایک خاص گروہ کی ایک خاص قسم ذہنیت کی وجہ سے سڑکوں، چوراہوں پر ایسے واقعات اکثر بھیانک انجام پر ختم ہوتے ہیں۔ یہ غیر معمولی واقعہ کسی نے موبائل پر ریکارڈ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوگیا کہ ساری دنیا میں ایک ٹرینڈ بن گیا۔ لوگوں نے فیس بک، ٹویٹر، انسٹگرام اور یوٹیوب پر اس کو پھیلانا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی مسکان کی طرفداری کی، کچھ بالی ووڈ اداکار اور اداکارئیں بھی مسکان خان کے حق میں سامنے آئے اور انتہاپسندوں کے رویہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ایک طرف لوگوں نے انتہاپسندوں کو برا بھلا کہا کہ کسی طرح وہ ایک نہتی لڑکی کو ایسے بہیمانہ طریقہ سے ہراساں کرسکتے ہیں تو دوسری جانب لوگوں نے مسکان کے حوصلہ کو سراہا اور اس کے احتجاج کو مزاحمت کا نام دے دیا۔
اس واقعہ کے بعد میڈیا بھی مسکان کے پاس پہنچ گیا۔ مسکان نے بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ کچھ غنڈوں نے اس کے لباس کی وجہ سے اس کو ہراساں کیا اور جب ان لوگوں نے "جے شری رام” کے نعرے لگوائے تو میں نے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کپڑے کے ایک ٹکڑے پر تعلیم کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ حجاب کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا مذہبی، روایتی حق اور شناخت ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کو ڈر لگا تھا، مسکان کا کہنا ہے کہ مجھے ڈر بالکل بھی نہیں لگا تھا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ پرنسپل نے کبھی بھی ہمیں حجاب سے منع نہیں کیا ہے اور یہ جو کچھ غنڈے اسی طرح کر رہے ہیں ان میں کالج کے 10 فیصد طلباء بھی نہیں ہیں اور زیادہ تر لگتا ہے کہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں جو کہ یہ سب کر رہے ہیں۔
بھارت دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے۔ وہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ وہاں کی فلم انڈسٹری پر 70 سال تک راج کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان یوسف خان المعروف دلیپ کمار ہی تھے۔ عبدالکلام آزاد وہاں کے صدر رہ چکے ہیں۔ اے آر رحمان آج انڈیا کے سب سے بڑے موسیقار ہیں۔ محمد اظہرالدین انڈیا کے چند کامیاب ترین کپتانوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور آج بھی بالی ووڈ پر تین مسلمان شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان راج کر رہے ہیں۔ لیکن جب سے انڈیا میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے ہندو انتہا پسندوں کی تنگ نظری بڑھ گئی ہے اور ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے کہ انڈیا کی سیکولرزم کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ خاص ذہنیت کے متنفر لوگ کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور کوئی نا کوئی بھکیڑا ضرور کھڑا کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ شامل ہیں جو کہ مار پیٹ کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کی جانب سے کچھ سالوں سے "گھرواپسی” کے مہم کے نیچے مذہب کو تبدیل کرانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ لوگ اکھنڈ بھارت کے دعویدار ہیں جن کو دوسرا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی کل پرسوں لتا منگیشکر کی آخری رسومات کے دوران جب بالی ووڈ کے مشہور اداکار شاہ رخ خان اپنی سیکرٹری پوجا نندانی کے ساتھ انجہانی لتا جی کو خراج پیش کرنے ان کی میت پر پہنچے تو انہوں نے اپنے طرز سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، کچھ پڑھا اور اس کے بعد ماسک نیچا کرکے لتا جی کی میت پر پھونکا۔ یہ کلپ وائرل کر دیا گیا اور تنگ نظروں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ شاہ رخ خان نے لتا جی کی میت پر پھونکا نہیں بلکہ تھوکا ہے اور اسی طرح شاہ رخ خان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اسی طرح کبھی مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو ممبئی میں گھر نہ ملنے کی خبریں ملتی ہیں تو کبھی ان انتہاپسندوں کی جانب سے شاہ رخ، عامر اور سلمان کو ملک چھوڑنے کا کہا جاتا ہے۔ کسی ملٹی لیئرڈ سوسائٹی اور ملک جس میں کہ مختلف اقوام، مختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف لسانی گروہ رہتے ہوں، وہاں کا حسن سیکولر ہونے میں ہی جھلکتا ہے نہ کہ کسی خاص طبقے کو نشانے پر رکھ کر اس کو دیوار سے لگا دیا جائے۔ دنیا کو سیکولرزم کے حوالے سے انڈیا سے بہت سی امیدیں تھیں لیکن مودی سرکار کی وجہ سے انڈیا کے اس امیج کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اگر وقت پر اس تنگ نظری کا راستہ نہ روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب بھارت ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور کوئی بھی چیز نظروں سے اوجھل رہنے والی نہیں۔ آج کوئی بھی بات سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور لوگ اس کو دیکھ کر رائے بناتے ہیں۔ مسکان خان کے ایک نعرے کو اس سوشل میڈیا نے ایک جانب ساری دنیا کو سنا دیا تو دوسری جانب لوگوں کو یہ بھی دکھایا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مسکان خان کی مزاحمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر ملک کو انہی اصول کو اپنے ہاں بھی جگہ دینی چاہئے۔ باقی رہی بات حجاب کی تو یہ مذہب، کلچر اور روایات کے ساتھ جڑی چیز ہے اور اس پر فرانس میں ہو یا انڈیا میں، ساری دنیا کو ہر انسان کی شخصی اور مذہبی آزادی دیکھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ صرف حجاب اور مسلمانوں کی نہیں بلکہ کسی بھی شخص اور مذہب کا اسی طرح بزور بازو روکنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ انسان کی شخصی آزادیوں کے بھی خلاف ہے۔