سیاستکالم

صدارتی نظام کی گونج؛ حقیقت کیا، فسانہ کیا!

ساجد ٹکر

مملکت خداداد کئی ایک حوالوں سے ایک عجیب ملک ہے۔ کہنے کو تو یہاں سب کچھ ہے یعنی اگر موسم چار ہیں تو دشت و میدان بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ سبزہ زار اگر ہیں تو وسیع ریگستان بھی ہیں۔ جنگل ہیں تو اونچے اونچے پہاڑ بھی ہیں۔ دودھ کی پیدوار میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے تو چاول میں بھی دس بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ لوگ محنت کش ہیں تو زمینیں بھی مختلف فصلوں کے لئے موزوں ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے تب سے اس کو پروپیگنڈوں اور نازک صورتحال کی پٹی سے نکلنے کا موقع نہیں ملا۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی پروپیگنڈا چالو رہتا ہے اور ہمیں ہر حکومت سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ موجودہ حکومت آئی تو تبدیلی کے دعوے کے ساتھ تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوریاں ایسے سامنے آئیں کہ سابقہ غلطیاں شرمانے لگیں۔ موجودہ حکومت ملک میں معاشی انصاف، کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کے قیام کے بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ آئی تھی لیکن ساڑھے تین سالوں میں اس حکومت میں مہنگائی کا ریکارڈ بن گیا اور معاشی صورتحال مزید ابتر ہو گئی۔ اور جب پوچھا جاتا ہے کہ تبدیلی کہاں گئی تو جواب میں سابق حکمرانوں پر تنقید کر کے گلوخلاصی کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف تاویلیں پیش کی جاتی ہیں اور سابق لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کچھ عرصہ سے سابق حکمرانوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام یعنی پارلیمانی نظام پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی ہے۔ حکومتی کچھ لوگ اشاروں کنایوں میں اور کچھ براہ راست پارلیمانی نظام کو کوستے نظر آ رہے ہیں تو کچھ ببانگ دہل صدارتی نظام کے حق میں دلائل دیتے ہوئے دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں اور اسی طرح ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت اور گونج سنائی جا رہی ہے۔

کیا واقعی ایسی کوئی بات ہے، کیا واقعی ملک میں صدارتی نظام کے لئے کچھ کوششیں ہو رہی ہیں، اور کیا موجودہ حالات کا حل صرف صدارتی نظام میں مضمر ہے۔ اسی طرح کیا ملکی آئینی نظام کے تحت اس ملک میں صدارتی نظام کی گنجائش ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس نظام بارے دلائل دے رہے ہیں تو کیا ان کی کوئی تیاری بھی ہے، کیا وہ اس بارے سنجیدہ بھی ہیں یا یونہی بغض پارلیمانی نظام میں لگے ہوئے ہیں، کیا وہ جانتے ہیں جس آئینی نظام کے تحت یہ ملک چل رہا ہے اس کی روح صدارتی نہیں بلکہ آئینی پارلیمانی نظام ہے اور سب سے اہم یہ کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے تو کیا یہاں "سنٹرلائزیشن آف پاور” یعنی طاقت کی مرکزیت پر مبنی کوئی نظام چل سکتا ہے؟ اور کیا ساری جماعتیں اس اقدام کے لئے تیار ہیں؟

چلیں مان لیا کہ آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے لیکن کیا اس حکومت کے پاس ایسا کرنے کے لئے ضروری مینڈیٹ ہے اور اس سے بھی بڑھ کر کیا موجودہ حالات کے پیش نظر جبکہ پڑوس میں افغانستان کا قضیہ ہے، ملکی سیاسی صورتحال نازک ہے اور بین الاقوامی صورتحال بھی موزوں نہیں ہے تو کیا ایسا کوئی اقدام آسان اور فائدہ مند ہو گا۔

ایک عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں حکومتیں جب بھی کسی مشکل کا شکار ہو جاتی ہیں تو شوشے بھی چھوڑے جاتے ہیں اور متنازعہ باتیں بھی سامنے لائی جاتی ہیں، مخالفین کو آڑے ہاتھوں بھی لیا جاتا ہے اور نظام پر برہمی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو دیکھا جائے تو اس کو مہنگائی، اپنے وعدوں کے ایفاء اور مختلف محاذوں پر ناکامی کی وجہ سے عوامی سطح پر بدترین تنقید کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ حکومت ہر اس اقدام کو اٹھا رہی ہے جس سے کہ اس کو وقتی طور پر کچھ افاقہ ہو۔

اسی سلسلے میں ملک میں ایک مدت سے صدارتی نظام بارے باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور مختلف فورمز پر اس کے لئے ذہن سازی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہم کئی مواقع پر ماضی قریب میں وزیراعظم عمران خان کو مختلف انٹرویوز میں پارلیمانی نظام کی برائی اور صدارتی نظام کی تعریف کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں بلکہ یہاں تک ان کو کہتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ وہ کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن یہ نظام ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

اسی طرح مختلف وزیروں اور مشیروں کو بھی صدارتی نظام کے حق میں اور پارلیمانی نظام کی مخالفت میں رائے دیتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بالکل شعوری طور پر صدارتی نظام بارے ملک میں ایک ارتعاش پیدا کیا جا رہا ہے۔

اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کو معاشی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے، ایک طرف آئی ایم ایف کی تلوار ہے تو دوسری جانب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، ایک طرف بے روزگاری ہے تو دوسری جانب روزگار کے سکڑتے ہوئے مواقع، ایک طرف بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں باہم بیٹھ کر ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کی کوشش کرتیں لیکن اس کے برعکس سارے آپس میں دست و گریباں ہیں اور رقابتیں عروج پر ہیں۔

اس ملک میں ایک مدت سے احتساب کے نام پر ایک عجیب سا ڈرامہ چل رہا ہے لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا سیاسی طور پر جماعتیں انتہائی درجے کی پولرائزیشن کا شکار ہو گئی ہیں اور کوئی بھی کسی پر باور کرنے کے تیار نہیں ہے۔ ملک پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو حکومت ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے برداشت سے کام لیتی ہے اور مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر مسائل سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہاں بدقسمتی سے روز اول سے عمران خان کی حکومت "پکڑو”، "جیل میں ڈال دو”، "این آر او نہیں دوں گا” اور "سارے چور ہیں” کے فلسفے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک بحرانوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ فکر کوئی اگر کسی کو ہے تو بس یہ کہ اپنا دامن صاف ظاہر کرنے کی کوشش کرو، کیچڑ اچھالو اور دوسروں کو بدنام کرو، ڈرامہ کرو، پروپیگنڈا پھیلاؤ اور الزام کے اوپر الزام لگاؤ۔ کیونکہ ہمارا مزاج ہی ایسا ہے کہ ہم ناکامی کی صورت میں ذمہ داری قبول کرنے والے نہیں بلکہ کسی دوسرے پر الزام لگا کر اپنا بوجھ ہلکا کرنے والے لوگ ہیں۔

ملک میں جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے تب سے مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، ڈالر اوپر جا رہا ہے اور روپیہ بے وقعت ہو رہا ہے، تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور گیس ناپید ہوتی جا رہی ہے، بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو روزمرہ اشیاء کی قیمتیں بھی روزمرہ کے حساب سے اوپر جا رہی ہیں۔ ایسے میں جب حکمران لاجواب ہو جاتے ہیں تو عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کوئی ایک ایسا ایشو پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ لوگوں میں مقبول ہو اور ان کی توجہ اس کی طرف مرکوز ہو جائے اور حکمرانوں کی نااہلی یا ناکامی پس پشت چلی جائے۔ ایسے ہی موجودہ حکومت نے لگتا ہے کہ اپنی نااہلی، ناکامی اور نالائقی چھپانے کے لئے اس بار ملک میں صدارتی نظام بارے افواہوں کا میدان گرم کر رکھا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت اتنی سکت رکھتی ہے، کیا اس کے پاس مطلوبہ مینڈیٹ ہے اور کیا موجودہ ملکی، خطے کے اور بین الاقوامی حالات میں ایسا کوئی اقدام ممکن بھی ہے اور کیا ان لوگوں کے پاس کوئی مکینزم یا ٹھوس تیاری ہے؟

یقیناً جو لوگ اس نظام کے حق میں باتیں کر رہے ہیں ان کو بھی زیادہ کوئی علم نہیں ہے، بس ایک شوشہ چھوڑ رہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ بٹ جائے اور ملک میں پھیلی مہنگائی، بدامنی، ان کی ناکامی اور نااہلی سے لوگوں کی نظر ہٹے۔
یہ پریکٹسز گرچہ حکومتیں خود کو بچانے کے لئے کرتی ہیں لیکن بسااوقات ایسے پروپیگنڈوں سے ملک کا بہت نقصان ہو جاتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ان پروپیگنڈوں کا حکومتی سطح پر انکار کیا جائے اور قوم کو مخمصہ سے نکالا جائے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کوئی کام ہونے کا نہیں ہاں البتہ ان شوشوں اور پروپیگنڈوں سے قوم و ملک کا قیمتی وقت ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ بے چینی بڑھنے سے مختلف مفروضے جنم لے سکتے ہیں جو کسی بھی طرح اس ملک کے مفاد میں نہیں۔

ساجد ٹکر پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ورکنگ جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پشتو اور انگریزی میں بھی مختلف سماجی، سیاسی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button