عبد المعید زبیر
سیاست میں پراپیگنڈا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس پارٹی کا پراپیگنڈہ جتنا طاقتور ہو گا، وہ اتنی ہی ہمدردیاں سمیٹے گا جو اس کے ووٹ بنک میں اضافے کا سبب بنے گا۔ قطع نظر اس بات سے کہ وہ پراپیگنڈا کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے کیونکہ وقت سب کچھ ثابت کر دیتا ہے۔ البتہ اس میں عوام کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ ان پراپیگنڈوں کو کس طرح لیتے ہیں۔ کتنی تحقیق اور جستجو کرتے ہیں۔ یا پھر اندھادھند ایک دوسرے کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست کا زیادہ تر انحصار انہی پراپیگنڈوں پر ہے۔ ہر پارٹی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کارکردگی سے زیادہ اسی پر توجہ دیتی ہے۔ یہی حربہ خان صاحب نے اپنایا۔ چونکہ ان کے پاس بانوے کے ورلڈ کپ کے سوا کچھ نہیں تھا، تو انہوں نے خود کو اچھا لیڈر ثابت کرنے کے لیے ورلڈ کپ کا سہارا لیا، قطع نظر اس کے کہ اس پورے ورلڈ کپ میں ان کی اپنی پرفارمینس زیرو ہی رہی۔ دوسرا انہوں نے پراپیگنڈوں کا سہارا لیا کہ یہ سب چور ہیں، یہ سب ملک دشمن ہیں، یہ صرف اپنوں کو نوازتے ہیں۔ ان سب میں ایک لفظ موروثیت کا بھی تھا جسے اس دور میں بڑی پذیرائی ملی اور اس نے عمران خان کے ووٹ بنک میں بڑا اثر دکھایا۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ دیگر جماعتوں میں بس باپ لیڈر ہے تو اس کے بعد اولاد لیڈر بن جاتی ہے، دوسروں کا کوئی حق نہیں ہوتا، وہ غلام در غلام چلے آتے ہیں لہذا عمران خان سیاست سے موروثیت ختم کرے گا۔
بظاہر یہ اچھا نعرہ تھا۔ لوگوں کو اس بات نے متاثر کیا کہ ہم عرصے سے ایک ہی خاندان کے غلام چلے آ رہے ہیں۔ اب ہم خود بھی لیڈر بن سکیں گے۔ لیکن وقت سب کو ننگا کر دیتا ہے۔ وہ ہر کسی کا اصل چہرہ دکھا دیتا ہے۔ جس پارٹی اور جس پارٹی کے لیڈر نے موروثیت کے خلاف آواز اٹھائی، اس کی ناکامی میں اسی چیز نے بڑا کردار ادا کیا۔
بلدیاتی انتخابات میں جہاں مہنگائی اور کرپشن پی ٹی آئی کی ہار کی وجہ بنی، وہیں موروثیت نے بڑا کردار ادا کیا۔ پرویز خٹک جو پہلے وزیر اعلی رہے اور اب وزیر دفاع ہیں، ان کے بھائی، بیٹے، داماد، بیگم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ اب بلدیاتی انتخابات میں بھی انہوں نے اپنوں کو خوب نوازا۔ دوسری طرف گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان بھی اپنوں کو نوازنا چاہتے تھے۔ آپسی اختلافات نے انہیں عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ اسی طرح اسد قیصر اور ان کے بھائی ممبر ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں انہیں اپنی یونین کونسل سے بھی شکست ہو گئی۔ علی امین گنڈاپور جو منسٹر ہیں، ان کے ایک بھائی ایم پی اے ہیں دوسرا اب میئر کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ شہرام خان ترکئی، ان کے والد، چچا ممبر ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین خاں، حماد اظہر اور فواد چوہدری صاحب کے نام پیش پیش ہیں کہ جن کے بیٹے، بھائی یا کزن ممبر اسمبلی ہیں۔ گویا جو پراپیگنڈا دوسروں کے خلاف استعمال کیا تھا، آج وہی اپنے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
لیکن یہاں ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ سیاست میں بسااوقات یہی موروثیت بڑا کام دکھاتی ہے۔ چونکہ جمہوریت میں ہر پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے کی جنگ لڑنا ہوتی ہے، اور وہ اس کے لیے ہر حربہ آزماتی ہے۔ ہماری قوم کا ایک طرہ امتیاز ہے کہ وہ جس سے محبت کرنے لگیں تو ایسے کرتے ہیں کہ اس کے ہر جائز و ناجائز کام کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ہاں جعلی پیر بھی بہت کامیاب ہیں۔ لہذا جب یہ قوم کسی سیاست دان یا کسی لیڈر سے محبت کرنے لگے تو اس کے فیملی ممبران سے بھی بڑی محبت جتلانے لگتے ہیں۔ جیسا کہ ایک پروگرام میں قمر زمان کائرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی پارٹی میں بڑے سنجیدہ اور سینئر سیاست دان موجود ہیں تو آپ نے ایک بچے کو کیوں پارٹی لیڈر بنایا تو انہوں نے کہا کہ "چونکہ لوگ بھٹو صاحب اور بے نظیر صاحبہ سے انسیت رکھتے تھے تو اب ان کے بیٹے سے بھی وہ اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جو شاید کسی اور پارٹی لیڈر کو میسر نہ ہوتی۔” اس کی سب سے اہم وجہ یہ کہ ہر سیاست دان کا اپنا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے، مگر لیڈر پوری قوم میں اپنا لوہا منواتا ہے۔ لہذا اس لیڈر کے بیٹے یا بیٹی کو عوام میں بڑی جلدی پذیرائی مل جاتی ہے۔ جیسے اپوزیشن میں رہتے ہوئے مریم نواز نے والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ جہاں بھی گئیں، حکومت کے لیے چیلنج بنیں۔ یہی مریم نواز گیم چینجر بھی بن سکتی تھیں۔ بھٹو کے بعد بے نظیر نے جانشینی کا حق ادا کیا۔ آزادی مارچ اسلام آباد میں ایک مولانا فضل الرحمان کا سب سے چھوٹا بیٹا پنڈال میں آیا تو لوگوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا، نعرے بازی کرنے لگے، تصاویر بنانے لگے۔ گویا اسے عوام میں ابھی سے مقبولیت مل رہی ہے۔
مفتی محمود رحمہ اللہ کے بعد مولانا فضل الرحمن نوجوان تھے، جب وہ لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے لوگوں نے کہا کہ یہ بچہ ہے۔ مگر آج انہوں نے اپنے انتخاب کو سچ ثابت کر دکھایا کہ ان کا انتخاب درست تھا۔ ولی خان کے بعد ان کے بیٹے لیڈر بنے تو قوم نے دیکھا کہ ان کا بیٹا جماعت کی ترقی کا ہی سبب بنا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو مایوس نہیں کیا۔ اب اسفندیار ولی خان کے بعد ان کا بیٹا اوپر آ رہا ہے تو اگر پارٹی اور قوم اسے قبول کرتی ہے، تو کسی دوسرے کو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ایسے شخص کو تو اعتراض کا حق بھی نہیں ملنا چاہیے کہ جس کے بچوں کے پاس شاید پاکستانی شناختی کارڈ بھی نہ ہو۔ جس کی اولاد اپنے اپنے والد کی حلف برداری تقریب میں شریک نہ ہو، وہ کل کیا اپنے باپ کی وارث بنے گی۔
اگر شریعت کی رو سے دیکھا جائے تو شریعت میں کہیں بھی موروثیت کی بالکلیہ مذمت نہیں کی گئی۔ شریعت میں معیار اہلیت ہے۔ اگر اہلیت موجود ہے تو وہ وارث بن سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ جیسے نوح علیہ السلام کے بیٹے کے بارے میں کہا گیا کہ "انہ لیس من اہلک” کہ وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اپنے باپ کا وارث بننے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن گر اہلیت ہوتی تو کوئی حرج نہ ہوتا۔ جیسے قرآن مجید میں سلیمان علیہ السلام کو داؤد علیہ السلام کا وارث کہا گیا ہے کہ "وورث سلیمان داؤد” یہاں واضح طور پر کہا گیا کہ سلیمان علیہ السلام اپنے والد محترم کے وارث بنے لہذا انہوں نے وارث بن کر سلطنت کو مزید قوت بخشی۔
لہذا اسلام میں معیار اہلیت کو قرار دیا گیا۔ اگر اہلیت موجود ہے تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اہلیت موجود نہیں تو پارٹی کے ممبران اور کارکنان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس پر آواز اٹھائیں۔ مگر ہمارے ہاں دوسری پارٹیوں کے لوگ ایسے کام پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں جس کا وہ حق بھی نہیں رکھتے۔ اور خان صاحب جیسا بندہ تو بالکل اہلیت نہیں رکھتا جس کی اپنی اولاد تو اہل ہے نہیں اور دوسری طرف پوری پارٹی موروثیت سے بھری پڑی ہے۔