سیاستکالم

اور کچھ نہیں تو حکومت کی عملداری ہی قائم کر لیں!

ساجد ٹکر

دنیا کی کوئی بھی حکومت چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کی رٹ یا عملداری قائم نہ ہو تو وہ کسی ایک عرصہ کے لئے چل تو سکتی ہے لیکن کامیاب کبھی نہیں ہو سکتی۔ ایک کامیاب حکومت کی اہم صفات میں سے ایک اس کی عملداری ہوتی ہے اور عملداری کا عکس ڈرائنگ رومز یا حکومتی ایوانوں میں نہیں بلکہ بازاروں، شہروں اور عوامی مقامات پر دکھائی دیتا ہے۔

بازاروں میں روز مرہ اشیاء کی قیمتوں کا کیا حال ہے، اڈوں میں صفائی کی حالت ابتر ہے یا بہتر، عوامی ٹرانسپورٹ میں کرایوں کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے کہ ایک حکومت کی عملداری ظاہر ہوتی ہے اور پتہ لگتا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔ بدقسمتی سے جب سے ملک میں عمران خان کی حکومت آئی ہے تو دیگر شعبہ ہائے جات زندگی کے ساتھ ساتھ حکومت کی علمداری بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں کوئی سسٹم یا نظام نہیں بلکہ مخصوص لوگ خود اپنا طریقہ کار وضع کر کے کام چلا رہے ہیں۔ ایک بہت ہی عام مثال کرایوں کی ہے۔

پچھلے دو تین سالوں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں کرائے جتنی برق رفتاری سے بڑھے ہیں پہلے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ بس جس کا جب جی میں آیا تو چلتے چلتے کرایہ بڑھا دیا۔ صبح ایک بندہ گھر سے نکل کر کسی جگہ ایک کرایہ پر پہنچتا ہے اور جب شام کو گھر واپس لوٹتا ہے تو کسی نئے کرایہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آپ نظر دوڑائیں تو روزمرہ اشیاء کی قیمتیں ہیں جو کہ روزانہ کے حساب سے اوپر جا رہی ہیں۔ ایک طرف بجلی، تیل اور گیس ہے جن کی قیمتیں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب آٹا، گھی، تیل، چینی اور دال وغیرہ بھی اوپر جا رہے ہیں۔ سال میں بجٹ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو بار آتا ہے لیکن یہاں تو ہر روز غریب آدمی کو دکان پر، پٹرول پمپ پر اور گاڑی میں کرایہ پر ایک نئے بجٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ قیمتیں اتنی سرعت سے بڑھ رہی ہیں کہ ڈر لگ رہا ہے کہ بہت جلد غریب آدمی کو بہت سی چیزوں کے صرف نام یاد رہ جائیں گے کیونکہ خریدنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔

اسی طرح دواؤں کا بھی یہی حال ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کم از کم ایک سال کے لئے دواؤں کی قیمتوں کو برقرار رکھا جائے لیکن ایسا نہیں اور ایک بار اگر کوئی ایک قسم کی دوائی ایک قیمت میں لے تو دوسری بار جب خریدنے جاتا ہے تو دوائی وہی لیکن قیمت بڑھی ہوتی ہے۔ حکومت کوئی اتنی توپ شے نہیں ہوتی کہ ہر آدمی کو اشیاء ضروریہ بالکل مفت میں فراہم کرے۔ حکومت کی مثال ایک ذمہ دار سربراہ کی ہوتی ہے، حالات اور چیزوں پر گہری نظر رکھتی ہے اور حالات کو رواں دواں رکھتی ہے۔ حکومت دیکھتی ہے کہ ملک میں کہیں ناانصافی تو نہیں ہو رہی، حکومت دیکھتی ہے کہ ملک میں کہیں عوام کے حق پر ڈاکہ تو نہیں ڈالا جا رہا، حکومت دیکھتی ہے کہ عوام کو روزمرہ ضرورت کی چیزیں صحیح داموں مل رہی ہیں یا نہیں۔ اگر تو سب کچھ ٹھیک ہو تو حکومت ترقی کی دیگر راہوں پر فوکس کر کے قوم کو آگے لے کر جاتی ہے اور اگر حالات ٹھیک نا ہوں تو حکومت اس طرف توجہ مرکوز کر کے اس نقص کو نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح کہیں نہیں ہوتا کہ حکومت ایک برائی کو چھوڑ کر کسی دوسری اچھائی کی طرف جائے اور اس میں کامیاب ہو جائے۔ بلکہ یہ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ پہلے برائی کو ختم کرنا ہوتا ہے جس کے بعد اچھائی کا راستہ نکالا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے موجودہ حکومت روز اول سے کئی خوش کن نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہے اور ان نعروں کے ساتھ آج بھی میدان میں کھڑی ہے۔ یہ حکومت احستاب کے نعرے کے ساتھ آئی تھی، احتساب جب ہو گا تب دیکھا جائے گا لیکن ان نعروں کے بیچ غریب عوام کا کچومر نکال دیا گیا۔ مہنگائی ایک عفریت کی طرح پھیل گئی اور شائد اب کوئی جادو ہی اس مہنگائی کو قابو کرے کیونکہ اس مہنگائی پر قابو پانا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ مہنگائی ساری دنیا میں ہے لیکن ساری دنیا میں حکومتیں اپنے عوام کے مسائل سے اس طرح غافل بھی نہیں ہوتیں۔ یہاں مسئلہ صرف لاعلمی یا نااہلی کا نہیں بلکہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت کے مزے سبھی لوٹ رہے ہیں لیکن اگر کوئی اٹھ کر مہنگائی بارے پوچھے تو جواب ملتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک لوٹ لیا ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں لیکن کیا اب بھی ان کی حکومت ہے؟

بات بہت سیدھی ہے کہ جب تک ہم اپنی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے تب تک حالات سدھرنے والے نہیں۔ جب تک ہم دوسروں کو مورد الزم ٹھہرائیں گے تب تک ہم عوام کو لالی پوپ تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے لئے ایک آنے کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔ آج ہمارے اس اپروچ کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار بنا ہوا ہے۔ ہماری حکومت نے تہیہ کر لیا ہے کہ چونکہ برائی کی جڑ سابقہ حکومتیں تھیں تو ہم کیوں کچھ کریں۔ بقول وزیراعظم وہ ابھی تک وزیراعظم ہاؤس میں آرام سے بیٹھے ہیں، نکل گئے تو خطرناک ہو جائیں گے۔

ہماری وزیراعظم صاحب سے ایک ہی التجاء ہے کہ صاحب آپ نے کچھ کرنا ہو یا نہ کرنا ہو، کسی کو کرپشن کے الزام میں پھانسی دینی ہو یا کسی کو واپس لانا ہو، کسی کو این آر او دینا ہو یا نا دینا ہو، وزیراعظم ہاؤس سائیکل پر آنا ہو یا ہیلی کاپٹر میں، وزیروں مشیروں کا جم غفیر رکھنا ہو یا اکیلے سب کچھ کرنا ہو، تبدیلی لانی ہو یا نہیں، جو کرنا ہے آپ کی مرضی لیکن خدارا ایک کام کریں کہ تھوڑا سا اپنے وزراء اور متعلقہ محکموں کو ہدایت دیں کہ خود کو باخبر رکھیں کہ کیا ہو رہا ہے، کس کس طرح کے عوامی حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں، آپ ایک پٹرول کی قیمت بڑھاتے ہیں اور ادھر سو چیزوں کی قیمتیں چھلانگ لگا جاتی ہیں۔ آپ تو کہتے تھے کہ آپ کفایت شعاری کی مثال قائم کریں گے۔ آپ تو کہتے تھے کہ وزیروں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے تو اب ان سب کو باہر میدان میں بھیجیں کہ ان کو لگ پتہ جائے کہ کیا ہو رہا ہے۔

وزیراعظم صاحب ایک بات اور، آپ نے خبردار کیا ہے کہ میں اگر باہر نکلا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ آپ بڑے آدمی ہیں، آپ نے بات کی اور ہم نے مان لی لیکن سہمے سہمے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی اور کے بجائے آپ اگر اپنے وزیروں اور مشیروں کے لئے تھوڑے سے انجان بن جائیں اور ان کو تھوڑی آنکھیں دکھائیں تو شائد کام ٹھیک ہو جائے ورنہ حالات چیخ رہے ہیں کہ آپ کی ناؤ ڈوبنے والی ہے اور اس کی مثال بازاروں، دکانوں، شہروں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں آپ کی حکومت کی کمزور عملداری ہے جو کہ ہر جگہ آپ کی ناکامی کا باعث بن رہی ہے۔ نقصان بہت ہو چکا، تلافی مشکل ہے لیکن ایک چیز جو کہ آپ کے ڈوبتے سورج کو سہارا دے سکتی ہے وہ آپ کی عملداری ہے۔ آپ کرپشن پر قابو پا سکے اور نا "چوروں” کا حساب کتاب کر سکے۔ اب بس یہی ایک عملداری ہی آپ کے پاس ایک آخری حربہ رہ گیا ہے۔ آپ یہ بھی نہ کر سکے تو پھر خدا حافظ!

ساجد ٹکر پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ورکنگ جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پشتو اور انگریزی میں بھی مختلف سماجی، سیاسی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button