سیاستکالم

پاکستان اور خطرناک خان

عبد المعید زبیر

امام ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک کنجوس حج کر کے واپس آیا تو اس کے دوست اسے ملنے چلے آئے اور اسے دعوت کھلانے کا وہ وعدہ یاد کروانے لگے جو اس نے حج پر جانے سے پہلے کیا تھا۔ چونکہ یہ کام کنجوس کے لیے بہت بڑی مصیبت تھی تو اس نے جان چھڑانا چاہی اور اس نے کہا کہ "جو کچھ میں نے حج سے پہلے کہا تھا، اللہ نے سب معاف کر دیا۔”

پاکستان کو اپنے قیام کے بعد سے مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے۔ ان میں ایک مسئلہ کرپشن کا بھی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا، یہ لفظ تواتر سے سنتے ہیں۔ ہر الیکشن کے وقت اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ہر اک طرف سے کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے۔

عمران خان بھی اسی نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں اترے کہ یہاں کرپشن بہت ہے۔ ہر محکمہ اور دفتر میں کرپشن ہو رہی ہے۔ لہذا وہ قوم سے وعدہ کرنے لگے کہ مجھے موقع دیا جائے، میں نوے دنوں میں کرپشن کا خاتمہ کروں گا۔ جیسے تیسے مانگ تانگ کر برسرِ اقتدار ہوئے تو وہ بھی اس کنجوس کی طرح اپنا وعدہ بھول بیٹھے۔ جو باتیں الیکشن سے پہلے کرتے تھے، وہ شیروانی پہنتے ہی بھول گئے۔ یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا تھا کہ جن جماعتوں پر کرپشن کے الزامات اب تک لگا رہے ہیں، انہی جماعتوں کے افراد کو ملا کر کرپشن ختم کرنے چلے تھے۔

دراصل خان صاحب سیاسی شعور والے شخص ہی نہیں۔ وزارت عظمیٰ کا حصول ان کی ضد تھی جو وہ پوری کر بیٹھے۔ اب آگے کیا کرنا ہے یہ نہ انہیں پتہ ہے اور نا ان کے ساتھ بیٹھے لوگوں کو۔ مگر نقصان اس ملک اور یہاں کے باسیوں کا ہو رہا ہے۔ جب سے خان صاحب نے اقتدار سنبھالا، اس ملک اور غریب عوام کے لیے ناسور ثابت ہوئے ہیں۔ غریب کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ جس کرپشن کے نعرے کو بنیاد بنا کر وہ یہاں تک پہنچے تھے، آج وہ پہلے سے کئی درجے بڑھ چکی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں پاکستان 117ویں نمبر پر تھا۔ اگلے سال تین درجے بڑھ کر 120 پر آ گیا۔ قوم مہنگائی پر بات کرنے لگی تو قوم کو بتایا گیا کہ یہ سابقہ حکومتوں کی وجہ سے ہے۔ گویا ایک سال گزرنے کے بعد بھی سابقہ حکومتوں کے فیصلے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بجٹ اپنا، کابینہ اپنی، ادارے اپنے اور فیصلے اپنے مگر اثرات سابقہ حکومتوں کے چل رہے ہیں۔ چلیں مان لیا کہ ایک سال میں کچھ نہیں بدلا جا سکتا مگر اگلے سال مزید چار درجے بڑھ گئی۔ قوم سے خطاب کر کے کہا گیا کہ بس جو ہونا تھا، ہو گیا۔ اگلا سال نوکریوں کا ہے، خوشیوں کا ہے، ترقیوں کا ہے، کامیابیوں کا ہے۔ مگر دیکھا کہ اس سال اتنی کرپشن بڑھی کہ سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پاکستان 140ویں نمبر پر چلا گیا۔ گویا ایک سال میں ہی سترہ درجہ تک مزید کرپشن بڑھ گئی۔

بری کارکردگی سامنے آنے پر بچے والدین اور اساتذہ کا بھی سامنا کرنے سے کتراتے ہیں، مگر یہ ایسے تربیت یافتہ لوگ ہیں کہ جس کے وزرا یہ کہہ کر قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سابقہ حکومتوں کی رپورٹ ہے۔ یہ سابقہ حکومتوں کے بندوں نے حکومت کے خلاف تیار کی ہے۔ دوسری طرف ایک وزیر اس کو مان کر یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تو صرف سیاسی اور قانونی تنزلی کی رپورٹ ہے مالی کرپشن کی نہیں۔ گویا اتنی ذلت ابھی بھی کم لگی کہ مزید کے طلب گار ہیں۔ ابھی یہ کوئی حتمی رپورٹ نہیں ہوتی کیونکہ کرپشن کو ناپنا مشکل ہوتا ہے مگر اس کے اثرات کو ناپنا آسان ہوتا ہے۔ یہاں بھی انہی اثرات کو ناپنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ادویات پر سبسڈی ختم کر کے ہوش ربا ریٹ بڑھا دیے گئے۔ گیس دو سو گنا مہنگی کر کے ناپید کر دی گئی۔ پٹرول پاکستان کی تاریخ کے سب سے مہنگے ریٹ پر فروخت ہونے لگا۔ یہ وہی پٹرول ہے جو 2018 میں ستر روپے سے بھی نیچے چلا گیا تھا اور اب ڈبل سے بھی قمیت کراس کر چکا ہے۔ آٹا، گھی، آئل اور چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بجلی کا ایک یونٹ ڈبل قمیت سے بھی بڑھ گیا۔ اس پر لگنے والا ٹیکس اصل خرچ سے بڑھ گیا۔ اگر اس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ میں مالی کرپشن کو بھی شامل کیا جاتا تو کس درجہ تک کرپشن ثابت ہوتی۔ مگر یہاں اپنی کمزوریوں پر نظرثانی کرنے کی بجائے قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خان صاحب اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ مجھے کچھ کہا تو مزید خطرناک ہو جاؤں گا۔ اب نہ جانے وہ کسے دھمکیاں دے رہے ہیں، مگر ہم جیسا مزدور آدمی تو یہی سمجھے گا کہ ہمیں ہی کہا جا رہا ہے کہ اگر میں چار سالوں میں پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا سکتا ہوں تو مزید سالوں میں اس سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہوں۔

یہ قوم کا وزیر اعظم نہیں ہو سکتا۔ یہ قوم کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایماندار نہیں ہو سکتا۔ جو اپنا کئی سو کنال کا گھر تو تیرہ لاکھ میں ریگولرائز کروا لے اور قوم کی جھونپڑی بھی گرا دے۔ جس کا اپنا دو لاکھ میں بھی گزارا نہ ہو مگر قوم کو دس پندرہ ہزار میں بھی گھبرانے نہ دے۔ جو لوگوں سے ہسپتال کے نام پر چندے وصول کر کے پارٹی پر خرچ کرے۔ یہ خان واقعی خطرناک خان بن چکا ہے۔ یہ واقعی موذی بن چکا ہے۔ یہ خان واقعی مزید نقصان کرے گا۔ اب یا تو اس سے چھٹکارا پانا ہو گا یا پھر ہمیشہ کی طرح تمام نقصانات پچھلی حکومتوں پر ڈال کر اگلے طوفان کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل اور اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button