کھیل

سیاسی تبدیلی کے آفٹر شاکس: چیئرمین پی سی بی کی کرسی ہلنے لگی

خیرالسلام

ہوا کے دوش پہ اڑ کے خبر آئی ہے کہ وطن عزیز میں حالیہ رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے آثار بڑے ایوانوں کے بعد اب دیگر محکموں میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ سیاسی تبدیلی کے آفٹر شاکس سے پی سی بی چیئرمین کی کرسی ہلنے لگی ہے اور سوشل میڈیا پر افواہیں زیر گردش ہیں کہ 35 پنکچرز والی چڑیا سرکار کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مسند صدارت پر بٹھانے کی تگ و دو جاری ہے۔

تادم تحریر اگرچہ پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کو فارغ نہیں کیا گیا کیوں کہ نئے وزیراعظم کی جانب سے انہیں کام جاری رکھنے کی تھپکی مل چکی ہے مگر معاملہ خاصا گمبھیر معلوم ہوتا ہے کیونکہ پورا ایک گروہ کرکٹ بورڈ کے پرکشش عہدوں پر نظریں لگائے بیٹھا ہے اور عین ممکن ہے کہ انہیں اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیابی حاصل ہو۔

شاید یہی مکافات عمل ہو! سال 2018 کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیابی سمیٹنے والی پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر عمران خان نے تقریب حلف برداری کے دوران ہونے والی تقریر میں 22 کروڑ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ اداروں کے ساتھ چھیڑخانی کی ریت کو اب مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے اس چیز نے ملکی بنیادوں کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیا ہے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اداروں سمیت اہم عہدوں پر براجماں افراد بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اداروں کے ساتھ عدم چھیڑ خانی کا موٹو ان کی پارٹی منشور کا حصہ ہے اور منشور سے انحراف بارے سوچنا بھی ان کیلئے شاید ممکن نہ ہو لیکن محض چند دنوں کے اندر اندر کپتان نے یوٹرن لیتے ہوئے پہلا وار پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین چڑیا والی سرکار نجم سیٹھی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے کیا۔

نئے چیئرمین کی تعیناتی کیلئے قرعہ فال انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے سابق سربراہ اور بیوروکریٹک کریئر کی حامل شخصیت احسان مانی کے نام نکلا جنہیں لاکھوں کی تنخواہ سمیت چند دیگر پرکشش مراعات کے عوض بورڈ کا نیا چیئرمین بنا دیا گیا۔

یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ کرکٹ انفراسٹرکچر میں بہتری لانے اور نوجوان پود کی آبیاری کی خاطر سابق چیئرمین نجم سیٹھی کے کریڈٹ پر اگر کوئی کام ہے تو وہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا قیام ہے جس نے ملکی کرکٹ کو ینگ ٹیلنٹ دینے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ محمد وسیم جونیئر، شاہنواز دھانی، افتخار احمد، محمد حسنین، شاہین شاہ آفریدی اور نوجوان آل راونڈر خوشدل شاہ کے علاوہ درجنوں نام ایسے ہیں جن کی آبیاری پی ایس ایل کے پلیٹ فارم سے ہوئی اور جو پاکستان کرکٹ کے لیے ایک اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چونکہ نجم سیٹھی کا جھکاؤ عمرانی حکومت کے مخالفین کی جانب کچھ زیادہ تھا لہذا وہ سیاسی انتقام کا پہلا نشانہ بنے۔ نئے چیئرمین احسان مانی کو ایک بااعتماد اور رائٹ ہینڈ شخصیت کی ضرورت تھی جس کیلئے پی سی بی چیف ایگزیگٹیو وسیم خان کو انگلینڈ سے درآمد کیا گیا ساتھ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ ریجنل کرکٹ کو فروغ دینے کی سمری جاری کر دی گئی۔

جاوید میانداد، مدثر نذر، ایشین ڈان بریڈ مین ظہیر عباس، ماجد خان، سرفراز نواز، عبدالقادر، وسیم، وقار اور خود عمران خان بھی ماضی میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے ذریعے پاکستان کرکٹ ٹیم میں آئے اور دنیا بھر میں خوب شہرت سمیٹی۔ لیکن جب سے ریجنل کرکٹ کا آغاز ہوا ہے بین الاقوامی شہرت کے حامل کھلاڑی بھی فٹ پاتھ پر آ گئے ہیں اور یہ سب اداروں کے ساتھ چھیڑخانی کا نتیجہ ہے۔

ریجنل کرکٹ کیلئے آسٹریلیا تو ایک آئیڈیل ملک ثابت ہو سکتا ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس طرز کی کرکٹ کو پنپنے کے لیے شاید ایک صدی درکار ہو۔ احسان مانی اور چیف ایگزیگٹیو وسیم خان کی ملی بھگت سے اس وقت قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کے سر کو تھری ان ون کے تاج سے سجایا گیا یعنی ٹیم کی قیادت کے علاوہ انہیں بیک وقت چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔

Pakistan Cricket Board’s Ex Chairman and Former ICC president Ehsan Mani addresses a press

جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق کسی بھی فرد واحد کے لئے ایک ساتھ تین تین ذمہ داریاں نبھانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ پی سی بی کی اندرونی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بلاشبہ مصباح ایک قابل اعتماد کپتان کی حیثیت سے قومی ٹیم کو ایک وننگ مومینٹم فراہم کرنے میں کامیاب رہے لیکن اضافی بوجھ سے ان کی اپنی کارکردگی متاثر ہوئی اور بالآخر مصباح کو تین تین عہدوں کی بندر بانٹ کے باوجود انٹرنیشنل کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔

کرکٹ کو کنٹرول کرنے والا ادارہ یعنی پی سی بی کو سیاسی بیساکھیوں کے سہارے چلانے پر ایسا مجبور کیا گیا ہے جس کے بغیر اس کا گزارا ممکن ہی نہیں۔ کرکٹ ٹیلنٹ کے حوالے سے اللہ تعالی نے پاکستان کو بڑی فراخدلی سے نوازا ہے لیکن کرکٹ بورڈ کے اندر موجود سیاست کھلاڑیوں کے مابین ہونے والی گروہ بندی اور سب سے بڑھ کر قومی مفادات کے برعکس ذاتی پسند ناپسند اور جھوٹی انا نے پاکستان کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔

یہ بات اطہر من الشمس ہے کہ ایک زیرک قیادت کے حامل کھلاڑی کے جدید خیالات اور نت نئے تجربات سے قطع نظر انہیں ایک شاطر اور تیز و طرار سیاستدان کا ہونا بھی لازمی ہے تاکہ کرکٹ بورڈ کے اندر ہونے والی سیاست اور وہاں بیٹھے سیاستدانوں کے چنگل سے اپنے آپ کو بچایا جا سکے۔

ماہرین کرکٹ، تجزیہ نگار اور شائقین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنا انتہائی مشکل اور اعصابی تناؤ سے بھرپور کام ہے کیونکہ یہاں ٹیم قائد کو کرکٹ بورڈ کے اندر بیٹھے سیاسی مداریوں کے داؤ پیچ سے بچنا پڑتا ہے تو ساتھ ہی ٹیم کے اندر ہونے والی سیاست کھلاڑیوں کے مابین موجود گروہ بندی اور ٹیم کی قیادت کے لیے ہونے والی جدوجہد کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ ہینڈل کرنا پاکستانی قائد کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

مختصر یہ کہ اداروں کے ساتھ چھیڑخانی کی روش اب بند ہونی چاہیے۔ موجودہ پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ انٹرنیشنل کرکٹ کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک پروفیشنل کرکٹ تجزیہ نگار اور 1992 ورلڈکپ کے ہیرو ہونے کے ناطے انہیں چیئرمین کے عہدے سے فارغ کرنے کا فیصلہ خاصہ قبل از وقت ثابت ہو سکتا ہے۔

خیرالسلام چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی ہیں اور پشاورکے ایک موقر اخبار کے ساتھ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک بطور سپورٹس ایڈیٹر وابستہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دینیات اور سیاسیات سے بھی شغف رکھتے اور وقتاً فوقتاً مقامی اخبارات میں اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button