ہوم کراؤڈ اور ہوم گراؤنڈ، پھر بھی ہم کینگروز سے ٹیسٹ سیریز ہار گئے
خیرالسلام
دکھ اس بات کا نہیں کہ ہم ہوم گراؤنڈ پر کینگروز سے 24 سال بعد ٹیسٹ سیریز ہار گئے لیکن افسوس اس امر کا ضرور ہے کہ ہماری ٹیم اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی۔
جیت کے لئے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ ایک بہت بڑا فیکٹر تصور کیا جاتا ہے لیکن مہمان ٹیم کا گیم پلان انتہائی منفرد اور الگ ڈگر کا تھا جو اس سوچ کے ساتھ سرزمین پاک پر اترے کہ ہم نے باوجود فلیٹ وکٹ اور ہوم گراؤنڈ کے ایڈوانٹیج کے پاکستانی شاہینوں کو اپنی ہی سرزمین پر ہرانا ہے۔ اور کینگروز نے ایسا کر کے دکھا دیا کہ وہ دنیا کی بہترین اور عالمی نمبر ون ٹیم ہے۔
لاہور ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز جس وقت مہمان ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز نے دلیرانہ فیصلہ کیا تو ایک عام تاثر یہی تھا کہ پاکستانی کھلاڑی ٹیسٹ میچ کو ڈرا کی طرف لے کر جائیں گے لیکن افسوس ٹیسٹ برابر کرنا تو دور کی بات سیریز بچانا بھی ہمارے شاہینوں نے اپنے لئے کوہ ہمالیہ بنا دیا۔
ٹیسٹ میچ ٹیم ورک کا نام ہے۔ یہ کسی بھی کھلاڑی سے صبر و حوصلے، وکٹ پر ٹھہرنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر حالات کے مطابق کھیلنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ لیکن کرکٹ کیلئے ایک موزوں اور آئیڈیل ٹریک کی دستیابی کے باوجود پاکستانی شاہین جیسے کرکٹ کھیلنا بھول گئے۔
پاک آسٹریلیا کرکٹ سیریز کا آغاز راولپنڈی ٹیسٹ میچ سے ہوا۔ کرکٹ بورڈ کی ناعاقبت اندیشی کہ حکام نے فلیٹ اور مردہ وکٹ پر اکتفا کیا۔ شاہین شاہ آفریدی ،نسیم شاہ اور حسن علی جیسے باصلاحیت اور برق رفتار گیند بازوں کی موجودگی کے باوجود ٹیم منیجمنٹ کا یہ فیصلہ اچھا خاصا معنی خیز ثابت ہوا۔
پاکستان نے پنڈی ٹیسٹ کے پہلے روز ایک وکٹ کے نقصان پر دو سو پینتالیس رنز جوڑے۔ دوسرے روز چار وکٹیں گنوا کر پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں چار سو چہتر کے مجموعے پر اننگز ڈکلیئر کر دی۔ آسٹریلیا کو صرف ایک اننگز کھیلنے کا موقع ملا جبکہ پاکستان نے دوسری اننگز میں دو سو باون رنز سکور کیے اور اس کا ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا۔ یوں توقعات کے عین مطابق پنڈی ٹیسٹ میچ کا اختتام ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ہوا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے کہ مہمان ٹیم کو اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی چار وکٹوں کی حصول کیلئے 728 رنز کی قربانی دینا پڑی۔ پہلا ٹیسٹ میچ تو ڈرا ہوا لیکن یہاں کی وکٹ پر اعتراضات اٹھنے لگے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے میچ ریفری کی سفارش پر ایک ڈی میرٹ کا جرمانہ پاکستان کرکٹ ٹیم پر عائد کیا۔ اوپر سے پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کے اس بیان نے آئی سی سی کے فیصلے پر جلتی پر تیل کا کام دے دیا کہ پنڈی ٹیسٹ کیلئے فلیٹ ٹریک بنانے کا فیصلہ خود کرکٹ بورڈ کا تھا۔ بھولے بادشاہو! جب پوری دنیا کی کرکٹ ٹیمیں نتیجہ خیز وکٹیں بنانے کے حق میں ہو وہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کا انتہائی احمقانہ فیصلہ چہ معنی دارد؟
کراچی ٹیسٹ میچ کا فیصلہ بھی ڈرا پر منتج ہوا۔ حالانکہ اس ٹیسٹ میچ کو کینگروز نے نتیجہ خیز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بابراعظم اور وکٹ کیپر بلے باز رضوان احمد کی ایک بہترین کاوش نے اسے ڈرا کی جانب دھکیل دیا۔
قذافی سٹیڈیم میں کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کیلئے دونوں ٹیموں کی گیم پلان میں نمایاں اور واضح فرق دکھائی دیا۔ پاکستان دفاعی اپروچ کے ساتھ سیریز برابر کرنے کا خواہاں تھا لیکن کینگروز جو انٹرنیشنل کرکٹ میں جارحانہ اور اٹیکنگ گیم کھیلنے کے لیے خاصے شہرت رکھتے ہیں، ان کے ارادے پہلی ہی گیند سے خاصے خطرناک تھے۔
چونکہ پاک آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کے تمام میچز ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ تھے لہذا کینگروز کو اپنی پہلی پوزیشن کے دفاع کیلئے پاکستان کے خلاف جیتنا ازحد ضروری تھا۔ جب لاہور ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز کینگروز کپتان پیٹ کمنز نے ڈیکلریشن کا انتہائی دلیرانہ فیصلہ کیا تو ان کے ارادے اچھے خاصے خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔
میزبان ٹیم کو جیت کیلئے 351 رنز کا ٹارگٹ سیٹ کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ میزبان ٹیم 3.9 کی معمولی اوسط سے 90 اوورز میں مطلوبہ ہدف تک رسائی حاصل کر سکتی تھی۔ لیکن کینگروز اٹیک پر گئے اور پاکستان کو دب کر کھیلنے پر مجبور کیا۔ نتیجتأ پاکستان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی گئیں اور بالآخر آسٹریلیا نے میزبان ٹیم کو 115 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر تین ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز ایک صفر سے اپنے نام کر لی۔
مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی ٹیم اٹیک پر جاتی ہے تو اس کا جواب کاؤنٹر اٹیک کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران بھی بالکل یہی صورت حال تھی۔ لیکن بابر اعظم نے اپنی پروفیشنل اپروچ سے کینگروز کو اعصاب پر سوار ہونے نہیں دیا اور پاکستان ایک یقینی شکست سے بچ گیا۔
لاہور ٹیسٹ کے دوران پاکستان کی ناکامی کی اصل وجہ کھلاڑیوں کا دب کر کھیلنا ٹھہرا۔ کمنز نے جہاں نیتھن لیون کو ٹرمپ کارڈ بنانے کی کوشش کی وہاں کینگروز کپتان نے وکٹوں کے اندر گیندیں کرا کے ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جانب پاکستانی بلے بازوں کو پویلین واپس جانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ باقاعدہ ریکارڈ پر ہے کہ نیتھن لیون کے 40 اوورز روک کر بھی میچ کو بچا لیا گیا تھا۔ لیکن ہم محض 30 اوورز پر مشتمل کھیل کے دوران کینگروز سپنر کے آگے ڈھیر ہو گئے۔
انفرادی پرفارمنس کی بات ہو تو عبداللہ شفیق نے ایک سنچری اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے تین سو ستانوے رنز جوڑے۔ کپتان بابر اعظم 390، امام الحق 310 اور اظہر علی 300 رنز کے ساتھ بالترتیب دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ آسٹریلیا کی جانب سے پاکستانی نژاد عثمان خواجہ سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ انہوں نے دو سنچریوں اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 496 رنز کا ہدف عبور کیا۔
بلے بازوں کی طرح پاکستانی باؤلروں کی کارکردگی بھی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ شاہین شاہ آفریدی اور نعمان نے بالترتیب 9،9 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ حسن علی کو دو وکٹوں کیلئے 417 رنز کی پٹائی برداشت کرنا پڑی۔ نسیم شاہ نے 28.33 کے معمولی اوسط سے چھ وکٹیں اڑائیں۔
ٹیسٹ سیریز کے نتائج سے قطع نظر ہمیں مختصر فارمیٹ یعنی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کوچز، ٹیم منیجر، فٹنس ٹرینر اور سب سے بڑھ کر ٹیم منٹور کو چاہیے کہ وہ پلیئرز میں جم کر کھیلنے کا رجحان اجاگر کریں کیوں کہ ٹیسٹ سیریز تو ہاتھ سے گئی ایسا نہ ہو کہ باقی کے دونوں سیریز میں بھی ہمیں کینگروز کے ہاتھوں کلین سویپ سے دوچار ہونا پڑے۔