سیاستلائف سٹائل

ٹرمپ کی آمد: پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہو گا؟

پروفیسر ڈاکٹر منہاس مجید مروت کے بقول امریکہ کی مخالفت کرنا پاکستان کے لیے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر معیشت اور بین الاقوامی امداد کے حوالے سے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں تاہم اس کے باوجود یہاں امریکی صدارتی انتخابات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ امریکی انتخابات کا اثر پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ اس بار بھی پاکستانی رہنماؤں کی نگاہیں 5نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر جمی ہوئی تھیں اور خصوصاً اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان انتخابات میں گہری دلچسپی لیتی نظر آئی۔

سیاسی ماہرین اور تھنک ٹینک سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی دلچسپی کی وجہ شائد ان کی نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کے اعلان کی توقع ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات سے محض 3 دن پہلے 2 نومبر کو پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما لطیف کھوسہ نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ٹرمپ انتخابات جیت کر اقتدار میں آ گئے تو عمران خان 100 فیصد جیل سے باہر ہوں گَے۔ اس کے بعد 6 نومبر کو جیل سے عمران خان کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا: "جب امریکہ کی نئی حکومت آئے گی تو مجھے یقین ہے کہ وہ نیوٹرل ہو گی۔”

5 نومبر کے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے بعد پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بحث شدت اختیار کرتی گئی کہ ٹرمپ جب حلف لیں گے تو وہ پاکستان میں مبینہ انسانی حقوق کی پامالی اور عمران خان کی رہائی کی بات کریں گے۔ اس بحث کو حقیقت کا روپ اس وقت ملا جب 15 دسمبر کو ٹرمپ نے رچرڈ گرینل نامی ایک سابق سفارتکار کو اپنا خصوصی ایلچی نامزد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: لنڈا بازار؛ مہنگائی کے اس دور میں جو لوگوں کا بھرم رکھے ہوئے ہیں!

16 دسمبر کو خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے ” فری عمران خان” کا ٹویٹ کیا جس سے نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ طاقتور حلقے بھی پریشان نظر آئے۔ پھر اس کے بعد وہ عمران خان کی رہائی کیلئے مسلسل ٹویٹس کرتے نظر آئے۔ 25 دسمبر کو تو انہوں نے باقاعدہ ایک انٹرویو میں کھل کر اظہار کیا کہ عمران خان امن کے سفیر ہیں اس کو جیل میں نہیں حکومت میں ہونا چاہئے۔” لیکن اس انٹرویو کے بعد رچرڈ گرینل کا ایکس اکاؤنٹ پاکستان کے حوالے سے اچانک خاموش ہو گیا ہے اور پچھلے 5 دنوں سے پاکستان سے متعلق ان کا کوئی ٹویٹ سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی حکومت اور طاقتور حلقے مسلسل یہ جوابات دیتے نظر آئے کہ وہ کسی قسم کا بیرونی دباؤ برداشت نہیں کریں گے اور عمران خان کی رہائی سمیت دیگر فیصلے آئین و قانون کے مطابق طے ہوں گے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیا "عمران بہانہ ہے، ایٹمی پروگرام نشانہ ہے۔” لیکن جو سوال عوامی حلقوں میں اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی آمد سے پاکستان پر کس قسم کا دباؤ آئے گا اور اس دباؤ کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہو گا؟

ٹی این این نے اس حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔

ٹرمپ کی آمد سے کس قسم کا دباؤ آئے گا؟

عمران کی رہائی کا دباؤ۔ مشاہد حسین سید

سینئر سیاست دان اور سربراہ پاک چائنا انسٹیٹیوٹ مشاہد حسین سید نے بتایا کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے سے عمران خان کی رہائی اور ان کو ریلیف دینے کا ایک سیاسی دباؤ تو ضرور آئے گا کیوں کہ عمران خان کی لابی امریکہ میں کافی مضبوط ہے اور ان کے ٹرمپ کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔ ان کے نزدیک دوسرا بڑا دباؤ یہ آ سکتا ہے کہ اگر ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امن کی بات کرتے ہیں یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے سعودی عرب پر دباؤ آئے گا تو شائد یہ دباؤ پاکستان پر بھی آئے۔

پاکستان امریکہ کے ریڈار پر نہیں۔ کامران یوسف

ایکسپریس نیوز سے وابستہ اینکر پرسن اور بین الاقوامی امور کے ماہر کامران یوسف سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ایک غیرروایتی سیاست دان ہیں۔ پہلے دور صدارت میں انہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب ہوں گے لیکن ان کے آنے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے تعلقات نہ صرف بہتر ہوئے بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے وائٹ ہاؤس کا دورہ بھی کیا۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت افغانستان سے امریکی انخلا کیلئے ٹرمپ کو پاکستان کی ضرورت تھی جبکہ اب صورت حال بالکل مختلف ہے اور پاکستان ٹرمپ کی ترجیحات میں کسی صورت ریڈار پر نہیں لہٰذا ٹرمپ کے دور اقتدار میں پاکستان کی اب وہ اہمیت نہیں ہو گی لیکن اگر کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہوا تو ٹرمپ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پاکستان سے بات کریں گے جس میں پاکستان کیلئے مواقع اور چیلنجز دونوں ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ روایتی ڈپلومیسی پر یقین نہیں رکھتے۔ پروفیسر طاہر ملک

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور تجزیہ نگار پروفیسر طاہر ملک کے نزدیک ٹرمپ کی آمد سے پاکستان پر کوئی خاص اثر اس لیے نہیں پڑے گا کہ دنیا میں لیڈرشپ آتی جاتی ہے تاہم ریاستوں کے مابین مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ایک غیرروایتی سیاست دان ہیں اور وہ روایتی ڈپلومیسی پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان کی حکمت عملی کیا ہو گی۔

پاکستان پر امریکی دباؤ کی تاریخ موجود ہے۔ ڈاکٹر منہاس مجید مروت

یونیورسٹی آف پشاور میں شعبہ بین الاقوامی امور کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر منہاس مجید مروت سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ کی آمد کے بعد پاکستان پر دباؤ آنے کے امکانات اس بات پر منحصر ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی امریکی تاریخ موجود ہے، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کے معاملے پر- تاہم، موجودہ حالات میں یہ کہنا ضروری ہوگا کہ امریکی کانگریس اور دیگر عوامل بھی اس دباؤ کی شدت کو متاثر کریں گے۔

چین امریکہ کشیدگی کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ آ سکتا ہے۔ ڈاکٹر مراد علی

یونیورسٹی آف مالاکنڈ میں شعبہ سیاسیات کے سربراہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مراد علی نے بتایا کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک انتہائی غیر روایتی سیاست دان ہیں اور آپ ان سے اچھے یا برے کسی بھی اقدام کی توقع رکھ سکتے ہیں- جہاں تک ٹرمپ کے آنے سے پاکستان پر دباؤ کی بات ہے، اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سے کافی خوشگوار تعلقات وابستہ تھے اور دوسری طرف چین اور امریکہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان پر ایک قسم کے دباؤ کا امکان ضرور موجود ہے لیکن ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی توجو کا محور و مرکز روس اور یوکرائن تنازعہ ہے۔

امریکی ممکنہ دباؤ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہو گا؟

کامران یوسف کے خیال میں امریکہ کے کہنے پر پاکستان اپنی بنیادی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی کے موڈ میں نہیں ہوگا یعنی پاکستان ایسا بالکل نہیں کرے گا کہ امریکہ کے کہنے پر ایسے اقدامات کرے جن سے امریکہ کے مفادات کو تحفظ ہوں-

وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پہلے پاکستان کو سیکورٹی اور دیگر مدد فراہم کرتا تھا لیکن اب ان کے پاس کوئی اتنی سپیس نہیں رہی سوائے اس کے کہ وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی مدد کرے لہٰذا امریکہ کے پاس اب وہ ٹول نہیں رہے کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکے-

پروفیسر ڈاکٹر مراد علی کے بقول ایک کمزور ملک ہمیشہ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ہے لیکن امریکی ممکنہ دباؤ کے آنے سے پاکستان کی بنیادی خارجہ پالیسی میں کوئی واضح اور بڑی تبدیلی رونما ہوتی نظر نہیں آرہی-

پروفیسر ڈاکٹر منہاس مجید مروت کے خیال میں امریکی ممکنہ دباؤ کی صورت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ زیادہ متوازن حکمتِ عملی کی طرف جا سکتا ہے، جہاں پاکستان چین، روس اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرے گا۔ البتہ، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ معیشت اور دفاعی تعاون کے لیے امریکہ کا کردار اہم ہے۔

عمران بہانہ ایٹمی پروگرام نشانہ، بلاول کا بیان کتنا سچ کتنا فسانہ؟

مشاہد حسین سید کے بقول میرا نہیں خیال کہ بلاول بھٹو کا یہ بیانیہ صحیح ہے کہ وہ بہانہ ہے یہ نشانہ ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا نیوکلیئر پروگرام شروع سے ہی امریکہ اور مغرب کی نظر میں کھٹکتا ہے اور اس کی وجہ عمران خان نہیں بلکہ اس کا تعلق بنیادی طور پر یہ ہے کہ ہم ایک مسلمان ملک ہے اور ہمارے پاس یہ صلاحیت آئی ہے جو مغرب اور بلخصوص امریکہ نہیں چاہتا تھا- دوسرا انڈین لابی ہے جو امریکہ پر دباؤ ڈالتی ہے لہٰذا ہمارا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام شروع سے ہی کھٹکتا ہے اور کھٹکتا رہے گا-

جہاں تک بلاول بھٹو کے بیان کا تعلق ہے تو اس بارے میں کامران یوسف کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے- اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں- پہلی وجہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک طاقتور ایٹمی ملک کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا کیوں کہ امریکہ کو لگ رہا ہے کہ پاکستان چین کے قریب بھی ہے اور مسلم دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے- دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام رہتا ہے تو ایسی صورت حال میں امریکہ کو خدشہ رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام کسی اور ملک کے ہاتھوں لگ جائے-

پروفیسر ڈاکٹر منہاس مجید مروت بتاتی ہیں کہ بلاول بھٹو کے اس بیان میں حقیقت کا عنصر موجود ہے، کیونکہ ایٹمی پروگرام ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ عمران خان کے سیاسی بیانیے کو استعمال کرتے ہوئے اگر امریکہ یا دیگر ممالک پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، یہ بھی ایک سیاسی حربہ ہو سکتا ہے تاکہ عوام کی توجہ دیگر اہم مسائل سے ہٹائی جا سکے۔

چین یا امریکی بلاک؟ پاکستان کیلئے کون سا فائدہ مند

مشاہد حسین سید کے خیال میں اس میں بلاک کا مسئلہ نہیں ہے کہ چین یا امریکہ بلکہ اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے مفادات کس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن یہ فیصلہ صرف ہم نے نہیں کرنا ہوگا بلکہ دوسری طرف سے بھی فیصلہ ہوگا کہ ان کے مفادات کیا ہیں- وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات جامع حکمت عملی پر مبنی ہیں جبکہ چین سے ہمارے تعلقات اسٹریٹجک بنیادوں پر ہیں- ان کے خیال میں جو کچھ چین پاکستان کو دے سکتا ہے وہ امریکہ بالکل نہیں دے سکتا لہٰذا ہمارے لئے بڑا واضح ہے کہ ہم اپنا راستہ اس خطے کے حوالے سے متعین کریں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس خطے میں ہماری خارجہ پالیسی کیلئے چین نمبر 1 ہے لیکن اس میں یہ ضروری نہیں کہ ایک کے ساتھ دوستی کر کے دوسرے کی دشمنی مول لیجئے-

کامران یوسف سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ضرورت ہے- وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمیں امریکہ کیوں چاہئے اور چین کیوں- بقول ان کے پاکستان کو معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے ہوں گے کیوں کہ امریکہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتا ہے اور پاکستان کو اکثر آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوتی ہے-

جہاں تک چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات ہے تو ان کے بارے میں کامران یوسف سمجھتے ہیں کہ چین کے ساتھ ہمارے اسٹریٹجک مفادات کے تعلقات وابستہ ہیں- اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے مختلف فورم پر چین پاکستان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے لہٰذا پاکستان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ پاکستان واضح طور پر کسی ایک بلاک میں جائے- دونوں طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا پاکستان کیلئے بہرحال ایک چیلنج ضرور ہوگا-

پروفیسر ڈاکٹر مراد علی کے نزدیک پاکستان اس وقت امریکہ اور چین دونوں میں سے کسی کی بھی ناراضگی کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا جس حد تک ممکن ہو پاکستان کو امریکہ اور چین دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن پالیسی اختیار کرنی چاہئے جو بہرصورت پاکستان کیلئے ایک مشکل اور چیلنجنگ ٹاسک ہوگا- ڈاکٹر مراد یہ خیال رکھتے ہیں کہ اگر امریکہ نے ایک واضح ریڈ لائن ڈرا کردی کہ پاکستان کو امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا تو پھر ایسی صورت حال میں پاکستان کیلئے کافی مشکلات پیدا ہوگی لیکن ساتھ ہی وہ بتاتے ہیں کہ شائد حالات اس نہج تک نہ جائیں-

پروفیسر ڈاکٹر منہاس مجید مروت کے بقول امریکہ کی مخالفت کرنا پاکستان کے لیے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر معیشت اور بین الاقوامی امداد کے حوالے سے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چین کے بلاک میں شمولیت ایک متبادل ضرور ہے لیکن وہ پاکستان کی تمام اقتصادی اور سفارتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا اس لیے ایک متوازن حکمت عملی پاکستان کیلئے زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

Show More
Back to top button