سیاست

فائنل کال میں ناکامی: پی ٹی آئی کے پاس اب کیا آپشنز باقی ہیں؟

فائنل کال کی منسوخی اور علیمہ خان کے اس بیان کے بعد جو سوال بڑے شد و مد سے اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے پاس کیا سیاسی آپشنز باقی ہیں؟ اس حوالے سے ٹی این این نے سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے 24 نومبر 2024 کی فائنل کال تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مکمل طور پر زیرعتاب رہی ہے۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اس عرصے کے دوران جماعت کو کمزور کرنے کیلئے 9 مئی جیسے واقعات بھی کروائے گئے اور 8 فروری کو ان کا مینڈیٹ بھی چوری کیا گیا ہے۔

پارٹی کی سیاسی لیڈرشپ اس وقت یا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے یا پارٹی کی بنیادی فیصلہ سازی کا حصہ ہی نہیں ہے، جبکہ وکلا پر مشتمل پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو فیصلہ سازی کے فقدان کا سامنا رہتا ہے لہٰذا پارٹی کا ہر فیصلہ اڈیالہ جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی مرضی سے مشروط ہوتا ہے۔

24 نومبر کی فائنل کال کا فیصلہ بھی عمران خان کا تھا جس کا بنیادی مقصد مینڈیٹ چوری کی واپسی، 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، آئین و قانون کی حکمرانی اور تحریک انصاف کے تمام بے گناہ قیدیوں کی رہائی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 300 روپے کے معاملہ پر خواجہ سرا انجمن کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار

ان چار بنیادی مطالبات کو لے کر پی ٹی آئی کا قافلہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی قیادت میں پشاور سے اسلام آباد پہنچا لیکن 26 نومبر کو رات کے آخری پہر ریاست کی جانب سے مبینہ لاٹھی چارج کے باعث پی ٹی آئی کو یہ احتجاج منسوخ کرنا پڑا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف اسلام آباد میں احتجاج کی منسوخی کو حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے جب کہ تحریکِ انصاف کا الزام ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے احتجاج منسوخ کرنا پڑا-

3 دسمبر کو اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا کہ وہ یعنی عمران خان کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک کارڈ باقی ہے جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا اور وقت آنے پر استعمال کروں گا۔ فائنل کال کی منسوخی اور علیمہ خان کے اس بیان کے بعد جو سوال بڑے شد و مد سے اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے پاس کیا سیاسی آپشنز باقی ہیں؟ اس حوالے سے ٹی این این نے سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

پی ٹی آئی کے پاس اب کیا آپشنز باقی ہیں؟

اے آر وائی نیوز سے منسلک سینئر صحافی و اینکر پرسن ماریہ میمن نےاس سوال کا جواب یوں دیا کہ اس وقت صرف ایک ہی آپشن ہے کہ "مر جاؤ یا مار دو۔” وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت کوئی درمیانی راستہ بظاہر نظر نہیں آ رہا اور صورت حال ایسی ہے جیسے بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں ہم نے دیکھا تھا کہ قبر ایک تھی اور اس میں ایک ہی لاش جانی تھی، سب دیکھ رہے تھے کہ وہ لاش کس کی ہو گی۔

ماریہ میمن کے نزدیک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے "سب باری باری حکومت میں آؤ” کے روایتی فارمولے کو رد کر چکے ہیں جو باقی سب سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن قبول کر چکی تھیں۔ ان کے بقول اس وقت ہم ایک نئے سیاسی ڈومین کے اندر داخل ہو چکے ہیں جس میں سیاست کوئی نہیں ہو رہی بلکہ بدمعاشی کا میچ چل رہا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال کا انجام اتنا متاثر کن نہیں ہوا لیکن پی ٹی آئی کے پاس اپنی صوبائی حکومت کو بروئے کار لانے سمیت اب بھی کئی سیاسی آپشنز موجود ہیں: ”پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی کے حوالے سے یکسو ہونا پڑے گا- پی ٹی آئی کے اندر یہ اختلاف موجود ہے کہ اپنے مطالبات مفاہمت کے ذریعے منوانے ہیں یا مزاحمت کے ذریعے، اس حوالے سے پارٹی کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہو گا۔”

خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور پشاور میں نیو نیوز کے بیوروچیف لحاظ علی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایک بہترین آپشن یہ باقی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پورے ملک کے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرے تاکہ آئندہ پورے ملک کی عوام ان پر اعتماد کریں: "پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل سمیت بہت سے معاملات پر وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔”

”پی ٹی آئی سیاسی طور پر کمزور ہو گئی؟”

دنیا نیوز سے وابستہ سینئر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کے نزدیک مسلسل احتجاجی جلسوں میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر دھچکا ضرور لگے گا۔ پی ٹی آئی کا مستقبل اب خود پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ ”مرنے اور مارنے کی سیاست‘‘ سے الگ ہو کر سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے پر راضی ہو جائے تو مستقبل قریب میں اس کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی طور پر صرف تب ہی کمزور ہو سکتی ہے جب یہ اقتدار میں آئے گی کیوں کہ اپوزیشن میں تحریک انصاف ہمیشہ مضبوط رہی ہے اور عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر سب سے زیادہ فعال رہے ہیں: "یہ پی ٹی آئی کی سیاسی کامیابی ہے کہ ایک صوبے میں حکومت ہونے کے باوجود وہ خود کو اپوزیشن میں ڈال لیتی ہے چاہے وہ 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے بعد کے پی اور پنجاب میں حکومتیں ہوں یا اب کی بار کی کے پی حکومت۔”

ماجد نظامی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال کو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں جس طرح ختم کیا گیا اب وہ ایک وکٹم کارڈ بھی کھیل سکتی ہے لہٰذا پی ٹی آئی سیاسی طور پر کمزور نہیں ہوگ ی البتہ کچھ عرصے کیلئے ان کی بارگینگ پاور کم ضرور ہو گی لیکن بہتر حکمت عملی سے اسے دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

”کیا پی ٹی آئی کی کال پر لوگ ایک بار پھر نکلیں گے؟

دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک کے تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ خیال کرنا کہ اسلام آباد سے واپس جا کر پی ٹی آئی خاموش بیٹھ جائے گی، یہ خام خیالی ہے۔

ان کی رائے میں اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ واقعات کی وجہ سے پاکستانی سیاست کی تلخیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگ اب زیادہ غصے میں ہیں اور وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے، اور کچھ عرصے بعد نئے احتجاج کے ساتھ سامنے آئیں گے۔

لحاظ علی نے بتایا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز علی امین گنڈاپور اور حماد اظہر کیلئے نکلتے ہیں اور نہ ہی کسی اور رہنما کیلئے بلکہ یہ صرف اور صرف جیل میں قید عمران خان کی کال پر نکلتے ہیں لہٰذا اگر عمران خان پھر سے کال دیں گے تو یہ ایک بار پھر نکلیں گے لیکن اس بار شائد ان کی تعداد کم ہو کیوں کہ پی ٹی آئی کا ہر ورکر اب یہ سوال ضرور کرے گا کہ ”مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو، مجھے چھوڑو گے تو نہیں؟”

Show More
Back to top button