حکومت کا ‘آئینی پیکیج’ ہے کیا اور اسکی اتنی مخالفت کیوں ؟
رفاقت اللہ رزڑوال
کئی دنوں کی مصروف سیاسی سرگرمیوں اور قیاس آرائیوں کے بعد وفاقی وزیر قانون نے ‘آئینی پیکیج’ کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی اور انہیں یقین دلایا کہ کوئی بھی فیصلہ اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے پیر کے روز بتایا کہ آئینی عدالتیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں، قانونی برادری کا بھی یہی مطالبہ ہے اور تحریک انصاف بھی اس پر راضی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب تک وسیع تر اتفاق رائے نہیں ہوگا تب تک ہم آئینی ترمیم پیش نہیں کریں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئینی ترامیم کا مسودہ تاحال جاری نہیں ہوا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ ترامیم کے مطابق ججز کی ریٹائیرمنٹ عمر کی حد 65 سے 68 سال تک بڑھایا جائے گا۔
مجوزہ ترامیم کی قانون سازی میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو آپس میں ملانے کی تجویز بھی شامل ہیں۔
مجوزہ ترامیم پر اپوزیشن جماعت سُنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) اور جمعیت علمائے اسلام نے مخالفت کی ہے اور آئینی ترمیم کی پیکیج کو رد کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اب تک انہیں آئینی ترمیمی مسودہ نہیں ملا ہے تاہم عمران خان نے کہا ہے کہ آئین میں ترمیم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مدت ملازمت بڑھانے کیلئے کی جا رہی ہے اور اگر یہ ترمیم پاس کی گئی تو وہ اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
تاہم آئینی ماہرین مجوزہ ترمیم پر ملی جُلی رائے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے بعد جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک کرنے سے ججز کی تعیناتی میں کم وقت لگے گا مگر دوسری طرف اس کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کا بھی راستہ کُھل جائے گا جو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
پشاور ہائی کورٹ کے آئینی ماہر نعمان محب کاکاخیل نے ٹی این این کو بتایا کہ آئین میں ترمیم آئین کے شق 239 کے تحت کی جاتی ہے جس کے تحت کسی بھی ترمیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرکے صدر پاکستان کے منظوری کے بعد آئین کا حصہ بن سکتی ہیں۔
نعمان محب کاکاخیل نے مجوزہ آئینی ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا، "اس کی وجوہات کافی زیادہ ہے، اس میں سیاست بہت زیادہ شامل نظر آتی ہے اور حکومت نہیں چاہتی کہ مخالف جماعتوں کو عدالتوں سے کوئی ریلیف ملیں۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ انکے کیسز فوجی عدالتوں میں نہ چلیں یا اُن کی مخصوص نشستیں ضائع نہ ہو”۔
مجوزہ آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت لازمی ہے مگر حکومت کے پاس واضح اکثریت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اتوار کے دن کو ترمیم منظور کرنے کی حمایت کیلئے حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کی تھی جس کے چند گھنٹوں بعد حکومت کی مخالف پارٹی تحریک انصاف نے بھی مولانا سے ملاقات کی ہے تاہم مولانا فضل الرحمان نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس کی حمایت کریں گے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے پانچ جبکہ سینیٹ میں آٹھ ارکان موجود ہیں مگر مولانا کا اصرار ہے کہ آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودہ دیکھے بغیر وہ حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ نعمان محب کاکاخیل نے عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عدالتی نظام عوام کے مسائل سننے کی بجائے سیاسی معاملات میں پھنسا ہوا ہے۔ عوام کے 25 اور 30 سال سے کیسز چل رہے ہیں مگر دوسری جانب سیاسی مسائل منٹوں میں نمٹائیں جاتے ہیں۔
انہوں نے مجوزہ ترمیم کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وفاقی آئینی عدالتی (ایف سی سی) کے قیام کی بات کی گئی ہے جس میں آئین کی تشریح کی جائے گی جبکہ اب موجودہ وقت میں یہ اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی حقوق کے مقدمات اور آرٹیکل 199 کے تحت رٹ پٹیشن بھی ایف سی سی سنیں گے۔
انہوں ںے بتایا، "مجوزہ ترامیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ صرف دیوانی اور فوجداری مقدمات سنیں گی اور اس کے لئے کچھ شرائط ہونگے، تو مطلب یہ کہ یہ صرف عوام کے مقدمات سنیں گے”۔
نعمان محب کہتے ہیں کہ ایف سی سی ایک برتر عدالت تصور ہوگی جس میں الگ چیف جسٹس اور ریٹائرڈ ججز ہونگے جن کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تک ہوگی اور یہ ججز سپریم کورٹ سے 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کے بعد ایف سی سی میں جائیں گے۔