شہباز، علی امین کی ملاقات کے مثبت نتائج برآمد ہونگے؛ تجزیہ کار
رفاقت اللہ رزڑوال
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت کے ذمے خیبر پختونخوا کے بقایا جات، مختلف فیڈرل ٹرانسفرز کے تحت صوبے کے شئیرز، امن وامان سے متعلق معاملات، انتظامی امور، صوبے میں سحری و افطار کے اوقات میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سمیت دیگر اہم معاملات پر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ملاقات کی۔
سیاسی تجزیہ کار اس ملاقات کے پیچھے پاکستان کے اہم حلقوں کی کوششیں سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک اب مزید پوری یکسانیت کے ساتھ ایک ہی سمت میں چلے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب لڑائیاں مسئلوں کا حل نہیں۔
بدھ کے روز ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاقی وزیر احسن اقبال کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بحیثیت وزیر اعلی خیبر پختونخوا ان کی پہلی ملاقات تھی جس میں صوبے کے امن و امان اور صوبے کے واجبات کے علاوہ متعدد اہم معاملات پر بات چیت ہوئی۔
علی امین نے بتایا "ملاقات بہت ہی مثبت رہی، ملاقات میں جو امور زیر بحث آئے ان کے حوالے سے وزیر اعظم نے مکمل سپورٹ جبکہ صوبے کے بقایاجات کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی”۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ وفاق سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کریں گے جس پر عمل کرنا وفاقی حکومت کے لئے ممکن نہ ہو لیکن صوبے کے حقوق اور عوام کے مسائل کے حل کی بات ضرور کریں گے کیونکہ صوبے کے عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے اور عوام ہم سے توقعات رکھتی ہے اس لئے ہم نے صوبے کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے کام کرنا ہے اور ڈیلیور کرنا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ملک کو تیل، گیس اور بجلی کی فراہمی میں ہمارا صوبہ اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ملک کی بہتری کے لئے ہمارے صوبے کے وسائل استعمال ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے سابق نگران صوبائی وزیر خزانہ نے میڈیا کو کہا تھا کہ 1992 سے وفاق کے ذمے صوبے کا بجلی کی مد میں 3 ہزار ارب روپے واجب الادا ہے جبکہ ہر ماہ مزید ڈھائی ارب روپے قرضہ رائیلٹی چڑھتا ہے۔
اس موقع پر وزیر اعلی نے صوبے کی دوسری نگران حکومت کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے بہت سارے اچھے کاموں کی شروعات کی ہیں جو آگے چل کر ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہونگی۔
سیاسی امور کے ماہر محمود جان بابر نے ٹی این این کو اپنی بھیجی ہوئی ایک تحریر میں بتایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس “مفاہمت” کے پیچھے بھی پاکستان کے اہم حلقوں کی کوششیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک اب مزید پوری یکسانیت کے ساتھ ایک ہی سمت میں چلے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب لڑائیاں مسئلوں کا حل نہیں۔
محمود جان کہتے ہیں "خیر یہ جس کی بھی خواہش تھی اس کا اثر ضرور مثبت ہی نکلنا ہے صوبے کو بجلی کے خالص منافع کے اپنے پندرہ سو ارب روپے کے قریب رقم میں سے کچھ نہ کچھ ملنے کی امید پیدا ہوچلی ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ اگر وفاق کے ساتھ نہیں لڑے گا تو اسے این ایف سی میں بھی زیادہ شیئر مل سکتا ہے، بجلی کے خالص منافع کی حد بھی بڑھ سکتی ہے تعلقات بہتر ہوئے اورصوبہ چشمہ رائٹ بنک کینال کا منصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو نہ صرف مستقبل میں اپنی بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کی گندم کی ضروریات پورا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
انہوں نے ملاقات کا فائدہ بتاتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کو اپنی پسند کا چیف سیکرٹری یعنی شہاب علی شاہ بھی مل سکتا ہے بلکہ صوبے میں امن و امان کی بحالی میں مدد سمیت اور بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے بس اگر ہم “اچھے بچے” بن کے رہیں تو صوبائی حکومت لوگوں کے اندازوں کے مطابق کسی “بڑے گڑھے” میں گرنے کی بجائے ایک اچھی اُڑان بھی کرسکتی ہے یعنی اس صوبے میں بھی اچھے دنوں کی امید رکھی جاسکتی ہے۔