خیبرپختونخوا میں بننے والی حکومت کو کن چیلنجز کاسامنا ہوگا؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلیٰ کے امیدوار علی آمین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے قیام کیلئے دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں کسی فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی آزاد وزیراعلیٰ کیلئے امیدوار علی آمین گنڈا پور نے پیر کے دن پشاور ہائی کورٹ میں 9 مئی کے حوالے سے تھانہ رمنہ اسلام آباد میں دائر دہشتگردی کے مقدمے میں راہداری ضمانت حاصل کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان سیاسی جماعتوں کا نام نہیں لیا جن کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے بات چیت کر رہے ہیں۔ مگر کہا کہ پی ٹی آئی کے حمایتی آزاد امیدواروں کا دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کیلئے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کا اتحاد مذہبی جماعتوں وحدت المسلمین، مولانا شیرانی کی سیاسی جماعت یا سنی تحریک کے ساتھ متوقع ہے۔
علی آمین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ہماری لیگل ٹیم اور کمیٹی کے ارکان اس نقطے پر کوشش کر رہے ہیں کہ صوبے اور مرکز میں انکے کس پارٹی کے ساتھ متحدہ حکومت بن سکتی ہے یا نہیں، مگر ضروری نہیں ایک پارٹی ہو جو بھی فیصلہ ہوا وہ سامنے آجائے گا۔
انہوں نے بتایا ” صوبے کو حق دینا پڑے گا اور اسکے لئے آواز اُٹھائیں گے، ہمیں پتہ ہے پاکستان بھی ہمارا ہے اور اسکے معاشی مسائل ہیں۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے کہ ہمارا این ایف سی ایوارڈ، ہائیڈل پروفٹ کی مد میں ہم انہیں ٹائم تو دے سکتے ہیں کہ آپ سارے پیسے اکٹھے نہ دو لیکن یہ سوچنا کہ ہمیں وہ حق نہیں ملے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔ ہمیں اپنا حق چاہئے اور ہم اپنا حق چھیننا بھی جانتے ہیں”۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صوبے کی وفاق سے مالی وسائل کے حصول میں صوبائی نو منتخب حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اُس وقت بھی صوبے کی مالی وسائل کی حصول میں ناکام رہی تھی جب انکے پاس وفاقی حکومت بھی تھی۔
پشاور میں سینئر صحافی تیمور خان نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدواروں کے پاس صرف تین دن کا وقت ہے کہ وہ کسی پارلیمانی سیاسی جماعت کا حصہ بنے کیونکہ کل الیکشن کمیشن نے کامیاب امیدواروں کا حتمی فہرست جاری کیا ہے۔
تیمور خان کہتے ہیں ” میرا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مولانا شیرانی، سنی اتحاد کونسل یا وحدت المسلمین کی جماعت کا حصہ بنیں۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی کے ساتھ بھی بات ہوئی تھی مگر انہوں نے پہلے اقرار کیا تھا پھر انکار کیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی پی کے ساتھ بھی بات چیت ہوئی تھی اور اس کی تصدیق عاطف خان اور ضیاء اللہ بنگش بھی کرچکے ہیں مگر پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے وہ بات نہ بن سکی”۔
انہوں نے بتایا کہ کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدوارکا ہدف یہ ہے کہ وہ کسی طریقے سے ان جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرے جس کے پاس ان کے سوچ کے مطابق مخصوص نشستیں ہو مگر اگر پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ وہ کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے بعد اپنی مخصوص نشستیں حاصل کریں گے تو یہ قانون کے خلاف ہے اور یہ ان کے لئے قانونی پیچیدگی اور چیلنج ہے۔
کیا پی ٹی آئی حکومت سنبھالنے کے بعد صوبے کے حقوق کے حصول میں کامیاب ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں تیمور خان نے بتایا کہ صوبے کی مالی وسائل کا مسئلہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے اور یہ اس وقت بھی تھا جب صوبے اور وفاق دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔
انہوں نے بتایا ” میرا نہیں خیال کہ نومنتخب صوبائی حکومت وفاق سے صوبے کی رائیلٹی لے سکی گی کیونکہ اب تو صورتحال یہ لگ رہی ہے کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی پارٹی کی حکومت بننے جا رہی ہے اور ان دونوں کے درمیان سیاسی اختلافات صوبے کے وسائل پر مزید منفی اثرات مرتب کریں گے”۔
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے مگر تجزیہ کار کہتے کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت قائم ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن صوبہ خیبرپختونخوا میں صرف پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی جس کی وفاق میں شمولیت نہیں ہوگی جس کی وجہ سے صوبے کے مسائل بڑھنے کا امکان ہے۔
سینئر صحافی ارشد مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ اگر وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو ماضی کو دیکھتے ہوئے اس صورت میں پی ٹی آئی کا ان کے ساتھ چلنا اور ان سے مراعات لینا مشکل ہوگا۔
ارشد مومند کا کہنا ہے "اس وقت اگر بجلی اور این ایف سی ایوارڈ کی مد میں ملنے والی رائیلٹی کو دیکھا جائے تو اس حساب سے صوبے کی 90 فیصد اخراجات اس پر چلتے ہیں اور دوسری طرف ملک بھی معاشی بحران کا شکار ہے تو اگر سنجیدگی اور حکمت سے کام نہ لیا گیا تو صوبے کیلئے حالات مزید مشکل ہوجائیں گے”۔
الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا کی جاری کردہ کامیاب امیدواروں کی 93 میں سے آزاد امیدواروں کی تعداد 85 ہے اور الیکشن ایکت 2017 کے مطابق انکو تین دن کے اندر اندر کسی پارلیمانی جماعت کا حصہ بننا ہوگا۔