کیا علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا کے "مرد بحران” ثابت ہوں گے؟
یہ وقت ہی بتائے گا کہ گنڈا پور اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔
کیف آفریدی
عام انتخابات 2024 میں پاکستان تحریک انصاف کو سب زیادہ کامیابی ملی ہے۔ مرکزی سطح پر سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی اسے 90 نشستیں ملی ہیں اور یوں وہ آسانی سے یہاں حکومت بنا سکتی ہے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کو مرکز اور خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے لیے کسی پارٹی سے الحاق کرنا ہو گا کیونکہ اِس کے بغیر وہ حکومت نہیں بنا سکتی۔
پارٹی زرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے علی امین گنڈا پور کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نامزد کیا ہے۔ علی امین گنڈا پور اِس سے قبل 2013 میں بطور صوبائی وزیر جیل خانہ جات پرویز خٹک کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اِس کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں علی امین گنڈا پور نے ڈیرہ اسماعیل خان سے دو قومی حلقوں پر مولانا فضل الرحمان کو شکست دی تھی اور عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر گلگت بلتستان و کشمیر کمیٹٰی چیئرمین رہے۔
علی امین گنڈا پور اگر وزیراعلی خیبر پختونخوا مقرر ہوئے تو صوبے کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں؟ اِس حوالے سے سینئر صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کو عمران خان نے ہی نامزد کیا ہے تو اس لیے پارٹی کے اندر اس حوالے سے کوئی اختلاف پیدا نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی اختلاف کرے گا بھی تو وہ بندہ پارٹی سے تو کیا سیاست سے بھی دور ہو سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی آج کل مقبولیت بہت زیادہ ہے: "اگر اتحاد کی بات کی جائے تو یہاں بھی پی ٹی آئی کے لئے میدان صاف ہے۔ اِس وقت تقریباً 170 کے قریب سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں تو اس لیے پاکستان تحریک انصاف باآسانی خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 106 کے تحت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کسی بھی رجسٹرڈ جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔”
ایک سوال کے جواب میں علی نے بتایا کہ جنوبی اضلاع سے اس سے پہلے بھی اکرم خان درانی، مفتی محمود اور عنایت اللہ گنٖڈا پور وزیراعلی رہ چکے ہیں: "علی امین گنڈا پور کیسے صوبے کو چلائیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو وہ 2013 میں صوبائی وزیر اور پھر 2018 میں وفاقی وزیر رہ چکے ہیں لیکن صوبے کی ذمہ داری بہت بڑا کام ہوتا ہے اس لیے علی امین گنڈا پور کی اتنی بڑی کارکردگی نہیں ہے جس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکیں کہ یہ کس طریقے سے صوبے کو چلائیں گے اس لیے میرے خیال میں آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ علی امین گنڈا پور کتنے مضبوط ہوں گے اور خیبر پختونخوا کو آگے لے جا سکیں گے۔”
علی کے مطابق صوبے کو معاشی طور پر کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں۔ اسی طرح قبائلی اضلاع میں ترقیاتی فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 2022 سے قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں۔ صوبے کو معاشی بحران سے نکالنا ہو گا۔ سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی پر قابو پانا او امن کی فضا برقرار رکھنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو خود نامزد وزیراعلی علی امین گنڈا پور کا اپنا آبائی ضلع دہشت گردی سے متاثر ہے اور وہاں پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر جنوبی اضلاع میں بھی بدامنی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ تعلیم کا معیار، صحت اور خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے سمیت بہت سارے مسائل ہیں جن کو حل کرنا مشکل کام ثابت ہو سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کتنا مقروض ہے؟
سینئر صحافی اور نجی چینل کے بیورو چیف عقیل یوسفزئی نے اِس حوالے سے بتایا کہ اس وقت خیبر پختونخوا پر تقریباً 12 سو ارب روپے قرضہ ہے: "پاکستان میں اگر معاشی حالت کسی ایک صوبے کی خراب ہے تو وہ خیبر پختونخوا ہے۔ لگ اس طرح رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا کی حکومت کے مرکز کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کا 75 فیصد معاشی انحصار مرکز کی حکومت پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ بہت سارے بیوروکریٹ ہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ وقت نہیں گزار سکیں گے۔ تو گڈ گورننس کے بہت سارے مسائل بھی درپیش ہوں گے۔”
ایک سوال کے جواب میں عقیل یوسفزئی نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں نئی حکومت کو تین سب سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جن میں سیکورٹٰی مسائل، گڈ گورننس اور اقتصادی مسائل شامل ہیں: "علی امین گنڈا پور یا پی ٹی آئی کے کسی اور عہدے دار کے نوٹس میں یہ چیلنجز نہیں ہیں۔ وہ کوشش کریں گے کہ خیبر پختونخوا کو مسائل سے نکالیں۔ اس لیے مجھے لگ رہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں جو نئی حکومت بنے گی وہ مرکز میں شہباز شریف کے خلاف استعمال ہو گی جس طرح اس سے پہلے عدم اعتماد کے بعد محمود خان مرکزی حکومت کے خلاف استعمال ہو رہا تھا۔ اس لیے میرے خیال میں پی ٹی آئی کی ترجیحات میں صوبے کو درپیش مسائل کو حل کرنا شامل ہی نہیں ہے۔”
عقیل یوسفزئی نے امید ظاہر کی کہ پی ٹی آئی صوبے کے اِن مسائل کو ترجیحات میں شامل کرے گی کیونکہ صوبے کے عوام نے تیسری مرتبہ اسے موقع دیا ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے نامزد وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے اپنا ایجنڈا جاری کیا ہے جس میں انہوں نے صحت کارڈ کی بحالی، امن عامہ کا قیام، سیکورٹی معاملات، خواتین کو ان کے شرعی اور قانونی حقوق سمیت لنگرخانوں اور پناہ گاہوں کو دوبارہ آباد کرنا شامل ہے۔ اِس کے علاوہ وہ صوبے کو مالی طور پر خودمختار بھی بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ وقت ہی بتائے گا کہ علی امین گنڈا پور اپنے اِس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔