حکومت میں آکر آئی جی سمیت پولیس افسران کو جیل بھیج دیں گے، شیر افضل مروت
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ نو منتخب ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ عمران خان سے مشاورت کے بعد اپنے صوبے میں وزیر اعلیٰ کا نام فائنل کرینگے جبکہ 9 مئی کے بعد ہم پر جھوٹے مقدمات درج کرنے والے پولیس افسران کے خلاف کاروائی ہو گی۔ آئی جی پختون خوا سمیت تین آر پی اوز اور سات ڈی پی اوز کو جیل بھیجیں گے۔
تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کے حمایتی آزاد امیدواروں نے صوبے کے مسائل اور ترقی پر غور نہ کیا تو انتقامی سیاست سے صوبے کے عوام اور معاشی حالات مزید متاثر ہونگے۔
نومنتحب آزاد امیدوار شیرافضل مروت نے پی کے 64 سے آزاد حیثیت میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے افتخار اللہ جان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے موقع پر سرڈھیری میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی پی پی اور مسلم لیگ مل کر مرکز میں حکومت بناتی ہے تو یہ اس ملک کے عوام کے حق پر ڈھاکہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ساتھ قومی اسمبلی کے 87 نشستوں پر دھاندلی ہوئی جبکہ ان کے دعوے کے مطابق انہوں نے قومی اسمبلی کے 185 سے زائد سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
شیرافضل مروت نے پیپلزپارٹی پر بھی الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں پی پی پی نے ان کے 68 سیٹوں پر قبضہ کیا جبکہ پیپلز پارٹٰی صرف 16 قومی اسمبلی کے نشستیں حاصل کرچکی ہے۔
شیرافضل مروت نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ "ہمارے پا س فارم 45 موجود ہے اس لئے اگر ہمیں ہمارا حق نہ دیا گیا تو نہ صرف عدالت سے رجوع کرینگے بلکہ اپنے حق کے لئے اسلام آباد کی طرف مارچ بھی کرینگے”۔
شیرافضل مروت نے خیبرپختونخوا پولیس کو دھمکی دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ظلم کیا ہے اور اس ظلم کا بدلہ وہ حکومت میں آنے کے بعد لیں گے۔
انہوں نے بتایا ” میں خیبرپختونخوا پولیس کو خبردار کر رہا ہوں کہ صوبے میں پولیس نے ہمارے ساتھ بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور اس میڈیا ٹاک کے ذریعے میں ان کو وارن کر رہا ہوں کہ جس جگہ پر پولیس نے ہمارے خلاف غلط ایف آئی آرز کئے ہیں، اس تمام کا خمیازہ آئی جی خیبرپختونخوا کو بھگتنا ہوگا”
شیرافضل مروت نے مزید کہا ” آئی جی، 3 آر پی اوز اور 7 ڈی پی اوز تیاری پکڑے کہ وہ عنقریب جیل جانے والے ہیں۔ میں خود ان کیسز کی پیروی کروں گا یا تو وہ اپنے درج کئے گئے ایف آئی آرز ثابت کریں گے اور اگر ثابت نہیں کیا تو ہم انہیں جیل میں ڈال دیں گے”۔
تاہم سیاسی تجزیہ کار انتقامی سیاست کو عوام کی مفادات کی نقصان کے مترادف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نئی حکومت کو چاہئے کہ انتقام کی بجائے عوام اور صوبے کی ترقی پر توجہ دی جائے ورنہ صورتحال 2013 جیسی ہوگی۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی و تجزیہ کار صفی اللہ گل نے ٹی این این کو بتایا کہ انتقامی بیانات اپنی سیاسی انا کو تسکین پہنچانے کیلئے کافی تو ہے مگر اس سے عوام کو نقصان پہنچے گا۔ انکے مطابق سیاسی اثر رسوخ کو بیوروکریسی پر اثرانداز نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ قانون کے تابع ہوتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔
صفی اللہ گل کہتے ہیں ” یہ بیان ایسا آنی چاہئے تھا کہ عوام کی بھلائی کی خاطر ہم نے سب کچھ بھلا دیا اب عوام کے مفادات اور بہتری کیلئے اقدامات کریں گے۔ مستقبل میں ایسے قوانین بنانے پر زود دینا چاہئے کہ تمام ادارے خودمختار ہونگے اور کسی سیاسی اثر رسوخ سے بالاتر ہونگے”۔
انہوں نے بتایا کہ اگر موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو بالکل 2013 سے 2018 تک والی حکومتیں نظر آ رہی ہے کیونکہ اس وقت بھی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی جن کے آپس میں تعلقات خراب تھے مگر اب تمام سیاسی قائدین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ عوام اور صوبے کی ترقی کیلئے اقدامات اُٹھائیں جاسکیں۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 8 فروری کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انکو ‘جعلی’ انٹراپارٹی الیکشن کے نتیجے میں انتخابی نشان بلے سے محروم کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری کو ملک بھ رمیں قومی اسمبلی کیلئے 265 نشستوں میں 364 پر غیر حتمی نتیجوں کا اعلان کیا ہے۔
کمیشن کے مطابق 101 نشستوں پر آزاد امیدوار، 75 پر مسلم لیگ ن، 54 پر پاکستان پیپلز پارٹی، 17 پر متحدہ قومی موومنٹ، 4 پر جمعیت علمائے اسلام، 2 پر استحکام پاکستان پارٹی و بلوچستان نیشنل پارٹی اور 1 1 پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پختونخوا نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، مسلم لیگ ضیاء الحق اور مجلس وحدت المسلمین نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔