سیاست

قبائلی خواتین آج بھی اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم

 

نازیہ

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں انتخابات کے حوالے سے زبردست گہما گہمی نظر آ رہی ہے۔ لوگ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

اس بار خواتین بھی ووٹ ڈالنے کے لیے پرجوش دکھائی دے رہی ہیں تاہم وہ آج بھی مرضی کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے سے قاصر ہیں۔ قبائلی ضلع باجوڑ سی تعلق رکھنے والی کوثر بی بی نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ آٹھ فروری کے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ لیکن خاندان کے مردوں کی جانب سے انہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے۔

کوثر بی بی نے بتایا کہ اگرچہ ووٹ ڈالنا ہم خواتین کا آئینی حق ہے لیکن ہمارے قبائلی علاقوں میں اب بھی پدرشاہی نظام کی حکمرانی ہے جہاں مردوں کی راۓ کا خیال رکھا جاتا ہے۔

کوثر بی بی نے کہا کہ ہمارے مرد جب ووٹ ڈالنے کے لیے باہر جاتے ہیں اور خواتین بھی جاتی ہیں تو پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ اپ نے فلانے سیاسی کارکن کو ووٹ ڈالنا ہے کیونکہ ہمارا اس سے اچھا تعلق ہے۔ کوثر بی بی نے بتایا کہ وہ مردوں کی اجازت کے بغیر ووٹ کا حق استعمال کر ہی نہیں سکتی ہے جس کا انکو کافی دکھ ہے۔

کوثر بی بی نے بتایا کہ میں چاہتی ہوں کہ اس بار اپنی مرضی سے ووٹ ڈالوں لیکن مجھے پہلے سے بتایا گیا ہے کہ اپ نے اس سیاسی کارکن کے لئے ووٹ ڈالنا ہے جس کو ڈالنا ہی نہیں چاہتی۔

اس حوالے سے باجوڑ کی حنا فرضی نام نے ٹی این این کو بتایا کہ خواتین کے ساتھ ایسا صرف روایت کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ برسوں سے ایسا ہوتa ارہا ہے۔ خواتین نے بھی کبھی اس کے اوپر بات نہیں کی اور یوں ایک بڑی تعداد میں خواتین کے ووٹ ان کی مرضی کے بغیر شمار ہو جاتے ہیں۔

سماجی کارکن رابعہ نے بتایا کہ اگر خواتین اپنی مرضی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہے بھی تو انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو مردوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا بالخصوص تشدد کی صورت میں جو اچھی بات نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حلقے میں جہاں خواتین کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے سے روکا گیا تو وہاں پر الیکشن کے عمل کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

حنا نے بتایا کہ بڑے شہروں میں خواتین کو اپنی مرضی کا ووٹ ڈالنے کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت بھی ہوتی ہے مگر ہمارے قبائلی اضلاع میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔

الیکشن کمیشن میں کام کرنے والی سدرا نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں الیکشن کے حوالے سے اگاہی بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی خواتین کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی اہمیت کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کی خواتین میں کافی شعور آچکا ہے لیکن وہ پدر شاہی نظام کے ہاتھوں مجبور ہے۔ خواتین اتنی با اختیار اور خود مختار نہیں ہے جو اپنے فیصلوں پر ڈٹ کھڑے ہو کر حالات کا مقابلہ کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنا تو چھوڑو بعض دفعہ ان کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی رخسانہ نے بتایا کہ پاکستان کے ائین میں خواتین کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے لیکن قبائلی اضلاع میں اکثر ان کی راۓ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین صرف اپنے مردوں کی معاونت سے ہی فیصلے کرتی ہے۔

قبائلی اضلاع میں کُل 28 لاکھ، ایک ہزار 834 ووٹرز میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 16 لاکھ 71 ہزار 305 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 11 لاکھ 30 ہزار 529 ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر صائمہ منیر نے بتایا کہ خواتین کے کی تعداد کافی کم ہے اور اس میں بھی خواتین اپنی مرضی کا ووٹ نہیں ڈال سکتی ہے۔ خواتین کو ان کا حق دلانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اگر مستقبل مین خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے والے یا کم شرح کے حلقے میں انتخابات کالعدم تصور کئے جائینگے تو اس کے مثبت اثرات سامنے آسکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button