کیا واقعی سیاسی امیدواروں کی توجہ عوام کے مسائل حل کرنا ہے یا ووٹ بٹورنا؟
رفاقت اللہ رزڑوال
ملک بھر کی طرح چارسدہ میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل عوام نے متوقع نو منتخب سیاسی نمائندوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چارسدہ میں میڈیکل و کیڈٹ کالج کا قیام، صحت اور تعلیم کی سہولیات کے ساتھ خواتین کا تحفظ اور انہیں معاشی طور پر طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی امیدوار اپنے منشور کی بجائے دوسروں پر طعنہ زنی میں مصروف نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں خود مسائل حل کرنے کا اعتماد نہیں ہوتا۔
ضلع چارسدہ خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ ہے جسے صوبے کے بڑے سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کا گڑ سمجھا جاتا ہے جس کی قیادت اسفندیار ولی خان اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کر رہے ہیں۔
ضلع چارسدہ کے دو قومی اسمبلی حلقہ این اے 24 اور این اے 25 جبکہ صوبائی اسمبلی حلقہ پی کے 62، 63، 64، 65 اور 66 سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ جن میں اکثر سیاسی مخالفین ایک دوسرے کیلئے طنز کے نشتر برسا رہے ہیں مگر تجزیہ کاروں کے مطابق عوام کے مسائل کے حل اور اس کی منصوبہ بندی پر بات نہیں کی جاتی ہے۔
ضلع چارسدہ کے رہائشی اور دوکانداروں کے حقوق کی تنظیم متحدہ شاپ کیپر فیڈریشن کے سینئر وائس چئرمین حاجی صدیق اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ چارسدہ میں عوام کو صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں چارسدہ میں میڈیکل و کیڈٹ کالج کی منظوری دی گئی تھی مگر 15 سال گزرنے کے باوجود بھی اس اہم منصوبے پر کام شروع نہیں ہوا۔
حاجی صدیق نے بتایا کہ چارسدہ کی کُل آبادی تقریباً 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں دیہاتی علاقوں کی آبادی زیادہ ہے اور دیہی علاقوں میں مختلف قسم کی بیماریاں زیادہ رپورٹ ہو رہی ہے مگر چارسدہ میں ایسا کوئی بھی ہسپتال نہیں جہاں پر ان کا پراپر علاج ہوسکیں اور جب بھی کوئی معمولی سا حادثہ یا بیماری واقع ہوجاتی ہے تو ہسپتال کا عملہ پشاور منتقلی کیلئے تجویز دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چارسدہ میں صرف ایک کیٹیگری بی ہسپتال موجود ہے مگر اس میں آلات و اوزار، بیڈز سمیت 20 کے قریب ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے اور اس کا سارا بوجھ انہی ڈاکٹروں کو اُٹھانا پڑتا ہے جس کی سپشلشٹی نہ ہو تو مجبوراً مریضوں کو پشاور منتقل کرنا پڑتا ہے جس کے کافی اخراجات ہوتے ہیں۔
حاجی صدیق اللہ نے چارسدہ کے ٹرانسپورٹ نظام کے بارے میں بتایا کہ پشاور اور مردان سے چارسدہ آتے ہوئے اور چارسدہ سے پشاور یا مردان جاتے ہوئے کلاڈھیر کے مقام پر سڑک کا احاطہ کم ہونے سے رش کے مسائل ہوتے ہیں اور اس مسئلے کے حل کیلئے گزشتہ پی ٹی آئی کی حکومت میں وعدہ بھی کیا گیا مگر آج بھی اس وعدے کو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے متوقع نو منتخب سیاسی نمائندوں سے ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی اپیل کی ہے تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا ہوسکیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 17 جنوری کو نگران صوبائی وزیرصحت ڈاکٹر شوکت علی خان نے چارسدہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے دورے کے موقع پر ہسپتال کو 20 دنوں کے اندر اندر 30 تک ماہر ڈاکٹروں کی خدمات فراہم کرنا کا اعلان کیا تھا۔
الیکشن کمیشن چارسدہ کے مطابق چارسدہ میں خواتین رجسٹرڈ ووٹر مردوں کی نسبت تقریباً 45 فیصد ہے جن کی تعداد 4 لاکھ 80 ہزار 51 بنتی ہے۔ اسی طرح 55 فیصد کے ساتھ مردوں کی تعداد 5 لاکھ 85 ہزار 974 ہے۔
مگر خواتین کا کہنا ہے کہ الیکشن کے دن خواتین کو جلسوں، جلوسوں اور ووٹ ڈالنے کیلئے لایا تو جاتا ہے مگر سیاسی نمائندے منتخب ہونے کے بعد انکے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
چارسدہ میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تاج مینہ کہتی ہے کہ چارسدہ کی بیشتر خواتین پڑھی لکھی ہوتی ہیں اور نہ ان کے پاس کوئی ہنر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر انتہائی کمزور ہے اور مشکل سے اپنے بچوں کو پالتی ہیں۔
تاج مینہ کہتی ہے کہ وہ گھر پر دستکاری کا کام کرتی ہے جب وہ کوئی آرٹیکل تیار کرتی ہے تو اسے صرف 600 روپے تک مزدوری دی جاتی ہے اور وہ باہر جاکر 4 سے 5 ہزار روپے میں بکتی ہے، ‘اگر ہمارے پاس پیسے ہوتے تو ہم خود خام مال لا کر تیار کرکے بیچ دیتے اور یہی منافع ہمیں ملتا مگر ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ ہم خام مال خرید سکیں’۔
تاج مینہ کا کہنا ہے ” پختون معاشرے میں بچیوں کے موبائل استعمال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اسی وجہ سے ہم پیچھے بھی ہیں۔ اگر ہمیں موبائل کا استعمال کرنے دیا جائے تو ہم اپنے گھر کی بنائی ہوئی چیزیں باہر فروخت کرسکتے ہیں۔ اس آفر سے باشعور لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ان کی معاشی حالات بھی بہتر ہوتی ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں کی کمی ہے، یا تو بچیوں کو سکولوں تک نہیں بھجوایا جاتا اور اگر کوئی پرائمری تک تعلیم حاصل کر بھی لے تو مڈل اور ہائی سکولوں کا انتظام نہیں جس کی وجہ سے کافی بچیاں سکول پڑھنے سے محروم ہوجاتی ہیں۔
چارسدہ سے ویمن چیمبر کی صدر صفیہ بی بی بھی خواتین کے مسائل کے بارے میں کہتی ہے کہ چارسدہ میں بیشتر خواتین بیوہ ہیں اور انہیں اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے باہر مزدوری کرنی پڑتی ہے مگر معاشرے میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
"کوئی نہیں جانتا کہ اس مجبور خاتون کے گھر میں بچوں کی زندگی کیسی گزرتی ہے، نہ تو کوئی انہیں سپورٹ کرتا ہے اور نہ انہیں روزگار کے مواقع دینے کی حمایت کرتے ہیں تو ایسی خواتین کے لیے باہر جانا بھی ایک چیلنج ہوتا ہے”۔
صفیہ بی بی کہتی ہے کہ حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں پرسکون ماحول میں اپنا معاش ڈھونڈنے کی اجازت تو دی ہے مگر انہیں ہراساں کرنے پر قانون حرکت میں نظر نہیں آتا جس سے اکثر بیواؤں کے بچے چوراہوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے متوقع نومنتخب نمائندوں سے اپیل کی ہے ایک تو ہراسانی کے قوانین کو موثر اور قابل عمل بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ ہر گاؤں کی سطح پر خواتین کا معاش بہتر کرنے کے لئے منصوبے تشکیل دینے پر غور کیا جائے۔ چارسدہ میں انتخابی مہم کے دوران اکثر سیاسی امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران مسائل کی حل کی بجائے ایک دوسرے پر طنز و تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں جس سے عوام کے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔
سنئیر صحافی ریاض الحق سمجھتے ہیں کہ بطور معاشرہ اور ووٹرز سب کے سب جذبات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں اور سیاسی امیدوار بھی انکے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نہ صرف ووٹ بٹورا جاتا ہے بلکہ انکی کارکردگی پر سوالات کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر سیاسی شخصیات نے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے اذہان میں نفرت ڈالی ہے۔ اب نوجوان چاہ رہے ہیں کہ کیوں نہ ان کا لیڈر ان کی ذہنی تسکین کیلئے سیاسی مخالفین پر طنز کے نشتر برسا دیں مگر وہ اس دوران یہ سوال نہیں پوچھتے کہ آپ نے گزشتہ دور حکومت یا مستقبل میں عوام کی بہتری کیلئے کیا منصوبہ بندی کی ہے۔
ریاض الحق کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کرے اور عوام کو اپنی اگلے منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کرے تاکہ وہ مستقبل میں ان سے اپنی کارکردگی کے بارے میں پوچھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر قیادت دوسروں پرکارکردگی کی بجائے مخالفین پر طنز کرے تو نوجوان بھی اسی طرح تربیت پاکر مستقبل میں ایسی ہی سیاست کریں گے جس سے نہ صرف سیاست کو نقصان ہوگا بلکہ عوام کے مسائل بھی جوں کے توں رہیں گے۔