الیکشن ملتوی کرانے کی سازش یا موجودہ حالات میں ضرورت
سلمیٰ جہانگیر
پشاور کے رہائشی 78 سالہ گل رحمان کو شروع سے ہی سیاست میں دلچسپی تھی۔ انہوں نے اپنی عمر میں تمام اتار چڑھاو اور عوامی حکومت سے لیکر آمریت تک ہر قسم کی حکومت دیکھی ہے۔
وہ کہتے ہیں پاکستان میں جب میں انتخابات کا ماحول گرم ہوتا تو اس طرح کے حالات سامنے آتے ہیں جس سے یا تو انتخابات ملتوی ہوجاتے یا پھر اس کو لیٹ کیا جاتا ہے۔ شاید سیاسی لوگ اپنی ذاتی مفاد کے لئے ایسا کرتے ہیں جبکہ اس صورتحال میں عوام کے فائدے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ چلو مان بھی لیا کہ کچھ سیاسی ممبران کو تھریٹس ہے۔ یہ تو شروع سے ہی ایسا ہوتا ہے اگر انتخابات کو امن و امان کی خراب صورت حال کا بہانہ بنا کر لیٹ بھی کردیا جائے تو کتنا لیٹ کر سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق 2 مہینوں سے نہیں لیٹ کیا جاسکتا۔
گل رحمان مسکرا کر کہتے ہیں حالات تو وہی ہے جو کئی سالوں سے ہے کہیں ایسا تو نہیں مارشل لا کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
پس منظر
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پورے ملک میں 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کرائے جائیں گے لیکن ان انتخابات کے حوالے سے ملک میں عجیب سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں ملک میں انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے سیاست دانوں پر حملے ہونے کی وجہ سے اور دہشت گردی کے خدشات کی وجہ سے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے۔ جس وقت سینٹ کے اجلاس میں یہ قرار داد پیش کی گئی تو صرف 14 ارکان موجود تھے کورم پورا بھی نہیں تھا ۔ قرار داد کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے دوسری قرار داد سینیٹ میں جمع کی گئی جس میں انتخابات وقت پر کرنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔
پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے آئین آرٹیکل 52 میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت 5 سال ہے یعنی ہر 5 سال بعد قومی اسمبلی کا الیکشن ہوگا۔ اگر اسمبلیاں 5 سال کا معیاد پورا کرتی ہے تو 5 سال کے بعد خود بخود اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیں تو 60 دن کے اندر انتخابات کرانا ملک میں لازمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق اگر 5 سال کا مقررہ وقت پورا کرنے سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل ہوجائے تو پھر 90 دن میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔
الیکشن تاخیر سے ہو یا نا ہو سیاسی رہنما کیا کہتے ہیں؟
شگفتہ ملک عوامی نیشنل پارٹی پی کے 73 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا ہے۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان عوامی نیشنل پارٹی کو ہوا ہے۔ اگر ماضی پر ںظر ڈالی جائے تو دہشت گردی کا شکار ہوکر سب سے بڑے بڑے لیڈر اے این پی کے شہید ہوئے ہیں کیونکہ پشونوں کی سایسی جماعت ہے اور اسی پختونخوا کے مٹی کے اپنے لوگ ہیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اب بھی اس الیکشن میں بھی تھریٹس ہیں انکی سیاسی جماعت کو یا ان کے رہنماوں کو لیکن پھر بھی ان کے حوصلے بلند ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہو وہ اپنی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں کیونکہ سب عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا ہے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو اور ان کی پارٹی کے رہنماوں کو اس الیکشن میں جان کا خطرہ ہے اس لئے نگران حکومت اور تمام ذمہ دار اداروں کو چاہئے کہ الیکشن کو تھوڑا سا لیٹ کریں کیونکہ خدشات اور خطرے کی وجہ سے ان کے سیاسی رہنما اور ورکرز الیکشن مہم میں اس طرح حصہ نہیں لے سکتے جسطرح ضروری ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کیا کہتا ہے؟ کیا واقعی سکیورٹی خدشات الیکشن کو لیٹ کر سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق کیا واقعی قرار داد اور حالت کی روشنی میں انتخابات لیٹ ہوسکتے ہیں اس سوال کے جواب میں ترجمان سہیل احمد کہتے ہیں کہ انتخابات کو کوئی بھی کتنا بھی لیٹ کریں یا اس میں تاخیر کریں تو 2 یا 3 مہینوں سے زیادہ نہیں کرسکتے اسکے بعد انتخابات کو ہونا ہی ہے۔
جہاں تک سکیورٹی کی بات ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سکیورٹی اداروں جیسے پولیس اور پاکستان آرمی کو خط لکھا جاتا ہے ان کی جانب سے ماضی میں بھی کافی سپورٹ ملی تھی اور آنے والے انتخابات میں بھی ان کی جانب سے سکیورٹی کے تمام انتظامات کو پر احسن طریقے سے انجام دیا جائے گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے تمام انتظامات ہوچکے ہیں۔ خدانخواستہ انتخابات میں تاخیر ہو بھی جائے تو صرف پولنگ ڈے میں ہوگا ۔فی الحال تو مقررہ وقت پر الیکشن ہونے ہیں۔
قانون کی نظر میں کب اور کیسے انتخبات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟
کسی بھی انتخاب کو منسوخ یا لیٹ کرنے کے حوالے سے ملک کا قانون کیا کہتا ہے۔ قانونی ماہر طارق افغان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق حکومت کا مقررہ وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی 90 دن میں الیکشن کرانا ضروری ہے۔
جہاں تک الیکشن کے تاخیر کا اندیشہ ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور پھر نگران گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو شفاف اور منصفانہ انتخابات کا موقع دیا جائے اور پرامن انتخابات منعقد ہو جس میں عوام آسانی کے ساتھ پولنگ سٹیشنز جا سکے اور اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسا ماحول ملے جس میں وہ آزادانہ طور پراور پرامن طور پر انتخابات کا کمپین چلا سکے۔ جلسے جلوس منعقد کروائیں تو ایسے حالات میں انتخابات کا ہونا ممکن ہے۔
اگر دیکھا جائے تو 2013 کے انتخابات میں حالات بہت خراب تھے. جلسوں میں دھماکے ہوتے تھے خاص طورپر عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے جلوسوں میں بہت دھماکے ہوتے تھے اسکے علاوہ ٹارگٹ کلنگز کے واقعات بہت تھے جس میں بہت سے کارکنان اور رہنما اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوکر بیٹھے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے جلسوں میں ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا اور نا ہی کوئی دھمکی ملی تھی۔ اس لیے انہوں نے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اپنا مہم اور جلسے جلوس پرامن طریقے سے چلایا اور اسی سال پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
طارق افغان نے مزید بتایا کہ اسی طرح اگر 2018 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو انتخاب سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور اپنے انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کا شکار ہوئے جس سے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوں نے کافی حد تک انتخابی مہم اور جلسوں میں حصہ لینا کم کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک حالات پر امن ہوتے ہیں انتخابات منظم اور پر امن طریقے سے سر انجام پاتے ہیں۔ طارق افغان نے بتایا کہ 2024 یعنی آنے والے انتخابات پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت سازگار ہیں کیونکہ سابقہ انتخابات 2013 اور 2018 سے پہلے کے حالات بہت خراب تھے اور بد امنی بہت زیادہ تھی۔
اس سال اگر دیکھا جائے تو مولانا فضل رحمان اور ایمل ولی کو دھمکیاں دی گئی ہیں لیکن اسکے باوجود وہی سیاسی جماعتیں انتخابات کرانے کے حق میں ہیں کہ یہ ایک سیاسی عمل ہے اور ایسے حالات ابھی نہیں بنے کہ نگران حکومت انتخابات کو ملتوی کریں۔
طارق افغان کے مطابق انتخابات تب ہی ملتوی ہو سکتے ہیں جب تمام سیاسی جماعتیں بائیکاٹ کریں۔ اگر ایک پارٹی بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہے تو تب بھی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہونگے۔ 1997 میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا لیکن انتخابات اپنے مقررہ وقت پر کروائے گئے تھے۔ انتخابات تب تک ملتوی نہیں ہو سکتے جب تک ملک حالات جنگ کی حالت میں نا ہو یا ملک کے اندرونی حالات جب کنٹرول سے باہر ہو جائیں یا اگر ریاست کے پاس پیسہ نا ہو ملک دیوالیہ ہو جائے تو ایسے حالات میں انتخابات معطل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ کوئی جواز نہیں بنتا ہے الیکشن ملتوی ہو۔