ملکی سیاست میں عدم برداشت کیوں بڑھ رہی ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کے موجودہ صورتحال میں عدم برداشت کا مادہ بڑھ رہا ہے جس کا آنے والے الیکشن اور جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ ریاست اور سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو جمہوری اقدار اور آئین کی حدود میں رہ کر جدوجہد کی تلقین کریں۔
خیال رہے کہ 8 فروری کو پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ہر پارٹی اپنی مخالف جماعت کے ارکان کو نا اہل یا الیکشن سے نکالنے کیلئے قانونی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے مخالف جماعتوں کے کارکن اسے اپنی انا کا مسئلہ سمجھ کر گالم گلوچ اور جھگڑوں پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
اخباری رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ کے احاطے میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے اپنے مخالف فریق فضل محمد خان پر تشدد کیا تھا جس کی بعد میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے مذمت کی تھی۔
فضل محمد ضلع چارسدہ سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ این اے 25 پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے مدمقابل سیاسی حریف ہے جس نے سال 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر کو شکست دی تھی جبکہ 2022 کے ضمنی انتخابات میں تیسری دفعہ پی ٹی آئی نے اے این پی کو شکست دی تھی جس میں عمران خان اور ایمل ولی خان مدمقابل تھے۔
اُس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں فضل محمد خان نے توہین عدالت کی درخواست جمع کی تھی جس پر ایمل ولی خان کو نوٹس جاری ہوا تھا، جیسے ہی فضل محمد خان پشاور ہائی کورٹ میں داخل ہوئے تو اے این پی کے کارکنوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
اسی طرح جمعہ کی رات اسلام آباد ائیرپورٹ پر جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک کارکن کی پٹائی کی تھی۔ موصول شدہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکن مولانا فضل الرحمان کو غلط ناموں سے پکار رہے تھے جس پر پارٹی کارکن آپے سے باہر ہوکر تشدد پر اتر آئے۔
پاکستان کے سیاست میں اس سے قبل بھی تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدم تشدد کی پالیسی برقرار رکھنے کیلئے سیاسی قیادت، ریاست اور میڈیا کو کردار ادا کرنا تاکہ ووٹر کو بتائیں کہ جمہوریت کی بقاء دلیل اور منطق پر سیاسی اختلاف رکھنے کی بنیاد پر ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ایشیاء سٹڈی سنٹر کے سابق چئرمین اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سرفراز خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری اقدار اور روئیوں میں کمی پہلے ہی سے نظر آ رہی ہے مگر جب الیکشن قریب آ رہے ہو تو نہ صرف جمہوری اقدار ختم ہو رہے ہیں بلکہ تشدد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سرفراز خان نے عدم تشدد کی پرچار سیاسی پارٹیوں کی جانب سے تشدد پر بتایا کہ ان پر دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن کی اثر موجود ہے کیونکہ وہ عرصہ دراز سے ریاست کی سرپرستی میں اقتدار حاصل کرچکے ہیں اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ریاستی پالیسیاں پر تشدد رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ "عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ پختونوں کی وسائل، حقوق اور عدم تشدد کی بات کی ہے اور امن کا نام لینے والوں نے کئی قربانیاں دی ہے مگر جب آپ قربانیاں بھی دے رہے ہو اور آپ کو طعنہ بھی دیا جا رہا ہو تو انسان تشدد پر آمادہ ہوجاتا ہے”۔
ڈاکٹر سرفراز کا ماننا ہے کہ "جمہوریت برداشت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے، جب باچا خان اور ولی خان بات کرتے تھے تو تحمل سے بات کرتے تھے مگر ایمل ولی خان نے عمران خان سے اثر لے کر ان کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں”۔
انہوں نے بتایا کہ ضرورت اس وقت کی ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی تنقید کو برداشت کریں اور کارکنوں کو بھی سیاسی تنقید برداشت کرنے کی ترغیب دیں۔
دوسری جانب سے چارسدہ پریس کلب کے صدر سبزعلی خان ترین کہتے ہیں کہ تشدد کسی بھی پارٹی کو فائدہ نہیں دے سکتی ہے کیونکہ ایسے حرکتوں سے عام لوگوں کی دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور اس سے انہیں نقصان پہنچتا ہے۔
سبزعلی خان ترین کہتے ہیں کہ "بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی قریب میں نوجوانوں کی ایسی سیاسی تربیت کی گئی ہے جس سے ان کے اخلاقیات اور تہذیب کا جنازہ نکالا گیا اور یہی بتایا گیا ہے کہ سیاسی حریف کو تشدد اور گالیوں سے شکست دینا ہوگا”۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن قریب آ رہا ہے اگر اس کی شروعات تشدد سے کی گئی تو الیکشن تک مزید حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت آپس میں مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر اپنے کارکنوں کو بتائیں کہ ان کی سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر بھائی چارہ اور رشتہ داریوں کو خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔