سیاستکالم

ملکی سیاست کی کچھ اندرونی کہانی

آفتاب مہمند

گزشتہ دنوں جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات چیت کرتے ہوئے صدر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز آصف علی زرداری نے میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مرتبہ ملک میں قومی حکومت بنے گی۔ انہوں نے گفتگو کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف اس مرتبہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ اب ملک میں جہاں عام انتخابات 8 فروری کو ہونے ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسکا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ جوڑ توڑ، شمولیتوں، ورکرز کنونشنز، جلسوں سمیت تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔

سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کافی سرگرم ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو خود ملک کے مختلف حصوں میں جا کر جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نسبت مسلم لیگ ن کی سیاسی مہم ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ روز ایس ٹی ایچ کے میزبان سید طلعت حسین نے ایک وی لاگ میں ذکر کیا کہ مسلم لیگ ن کو اگرچہ سپیس بھی دی جا رہی ہے لیکن ایک حد تک۔ اب ایسا بھی نہیں کہ کوئی انکو حکومت پلیٹ میں رکھ کر دے۔ واقعی ن لیگ کے قائد نواز شریف، صدر ن لیگ شہباز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز و دیگر قائدین صرف میڈیا و سوشل میڈیا پر اجلاسوں کے انعقاد کی حد تک نظر آ رہے ہیں۔ ن لیگ ایک دو جلسے ضرور منعقد کرا چکی ہے اسی طرح پارٹی نے خیبر پختونخوا میں چند جلسوں کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے جس سے پارٹی قائد نواز شریف خطاب کریں گے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ گفتگو کے دوران ن لیگی رہنما خواجہ آصف پارٹی کی جانب سے انتخابی مہم میں سست روی کا اعتراف کر چکے ہیں۔

جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ جو ہو رہا ہے پوری قوم کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما روزانہ کی بنیاد پر کہتے آ رہے ہیں کہ ان کو دیوار سے لگا کر عام انتخابات سے باہر کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے بہت سارے معاملات عدالتوں میں ہیں ان کے فیصلے تو آنے والے دنوں میں ہونے ہی ہیں۔ زیادہ دور نہیں اگر دو ماہ قبل کی بھی بات کی جائے تو ملک میں ایک عام تاثر یوں تھا کہ ن لیگ کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ن لیگ کے بعض رہنماء ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں اپنی حکومت بنانے کا کھلم کھلا تاثر دیتے رہے ہیں۔ بلوچستان میں بعض شمولیتوں کے بعد بعض سیاسی جماعتوں کے شک و شہبات بھی بڑھتے گئے۔

ایسے میں میڈیا ٹاکس ہوں یا جلسوں سے خطاب، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یکساں لیول فیلڈ نہ ہونے کی آوازیں اٹھانا شروع کیں۔ تحریک انصاف کی تو روز اول سے لیول فیلڈ نہ ملنے کی بھرپور شکایات قوم کے سامنے ہیں اور اس سلسلے میں پارٹی نے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رکھا ہے۔ کچھ دنوں قبل ن لیگ کے پارٹی اجلاسوں اور اسی طرح ایک ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران پارٹی قائد میاں نواز شریف نے اچانک جارحانہ بیانہ شروع کر دیا جس میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض سابق افسران کے احتساب اور انکے ساتھ 2018 سے قبل ہونے والے مظالم کا ذکر شروع کیا تو اچانک بلوچستان کے کچھ اہم رہنماؤں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

اس حوالے سے ن لیگ تو بظاہر ریلیکس نظر آئی لیکن جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے معروف اینکرز پرسنز حامد میر اور سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنے لئے خود مشکلات پیدا کر رہے ہیں ایسے میں انکو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے ابھی بھی انکے پاس وقت ہے۔ ابھی چونکہ سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کی طرف بڑھنا ہے ، اپنی انتخابی مہمات کو بڑھانا ہے ایسے میں بعض حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف زرداری کی خاموشی کو کافی معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔

اسی حوالے سے کچھ اندرونی سیاسی کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔ اندرونی سیاسی خبروں و معاملات کے مطابق آصف زرداری نے قومی حکومت بنانے کا پلان بنا رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق ارکان قومی اسمبلی اور لیڈر شپ اس حوالے سے کافی مطمئن نظر آ رہی ہے۔ خود بلاول بھٹو جو میدان میں اترے ہیں کافی اطمینان کے ساتھ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم پیپلز پارٹی ہی سے ہو گا۔ ذرائع کے مطابق پلان کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اگلے صدر ہو سکتے ہیں۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ بعض اہم حلقوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردانہ واقعات کے پیش نظر اپنی نقل و حرکت محدود رکھیں۔

ایسے میں خود مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت بھی سیکیورٹی خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام جرگہ کے میزبان سلیم صافی سے گفتگو کے دوران خود مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس مرتبہ خراب حالات کے باعث وہ انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ خطے میں سرگرم عمل بین الاقوامی جنگجو تنظیم "داعش خراسان” تو بہت پہلے یہ اعلامیہ جاری کر چکی ہے کہ پاکستان میں جمعیت علماء اسلام انکے اولین نشانے پر ہے۔ جمعیت کے سربراہ سے لیکر کارکنوں تک حملے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ زرداری پلان کی کامیابی کی صورت میں مولانا فضل الرحمان صدر مملکت بن جانے کے بعد پارٹی کی سربراہی اپنے صاحبزادے کے حوالے کر دیں گے جبکہ سندھ سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے رہنماء راشد محمود سومرو پارٹی معاملات دیکھیں گے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ خاموش پلان کے مطابق مرکز میں پی ٹی آئی اور پی پی پی حکومت بنانے کا سوچا گیا ہے جبکہ جے یو آئی اور بعض دیگر سیاسی جماعتیں ان کی اتحادی ہوں گی۔ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ میں اب بھی ایک حصہ پی ٹی آئی کا حامی ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو حکومت میں نہیں لایا جاتا تو ن لیگ کو بھی سپورٹ نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ایک تو بدنامی ہوگی اور دوسری بات کہ نواز شریف وزیر اعظم بننے کی صورت میں ماضی کی طرح پھر بعض سابق ریٹائرڈ افسران کا احتساب شروع کرتے ہیں تو بات پھر ٹکراؤ کی طرف جائے گی اسلئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ میں لکھے گئے کالم کے آخر میں صاف لکھا ہے فوج کے بقول 9 مئی ’’ناقابل فراموش اور ناقابل معافی‘‘ ہے تو بلا تاخیر تمام شواہد کے ساتھ ’’بغاوت اور سازش‘‘ کی جزئیات کو سامنے لایا جائے تاکہ میڈیا، عوام اور عدلیہ تک واضح پیغام جا سکے کہ ان کا سابقہ کن لوگوں سے پڑا ہے۔ معاملات اس لئے الجھ رہے ہیں کہ 9 مئی کی سنگینی ابھی تک پوری طرح آشکار نہیں کی جا سکی ہے۔ طویل خاموشی کے باعث دُھند گہری ہو رہی ہے۔ صفر تک محدود ہوتی حد نگاہ کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ میاں نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے عرفان صدیقی کے کالم سے تو ہوں محسوس ہوتا ہے گویا وہاں کنفیوژن ضرور موجود ہے۔

صوبہ پنجاب کی بات کریں تو مذکورہ پلان کے مطابق وہاں ن لیگی حکومت قائم ہو گی۔ ن لیگ اگر موجودہ حالات کا فائدہ نہیں اٹھاتی تو پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ق لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کو موقع دیا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی، پی ٹی آئی پی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی حکومت بنائی جا سکتی ہے تاہم پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے پرویز خٹک پر سنگین اعتراضات بھی ہیں کہ خیبر پختونخوا کو تو سب سے زیادہ نقصان انہوں پہنچایا ہے۔ ایسے میں خاموش پلان مزید غور و فکر کر رہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت قائم ہو گی جبکہ معاملات طے کرنے پر ایم کیو ایم اتحادی ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں پی پی پی اور جے یو آئی کی حکومت ہو گی تاہم بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتیں بھی اتحاد کا حصہ ہوں گی۔

گو کہ تحریک انصاف کی جانب سے تاثر یہ ہے کہ ان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ لیکن جس طرح عدالتوں کے ذریعے انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے اس کے بعد ان کا تاثر بلا جواز ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے قریبی حلقوں کا ماننا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ فرینڈلی فائرنگ کی حد تک تو ملوث ہے لیکن ابھی تک اس نے سیاسی ڈنڈا نہیں اٹھایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ جتنی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رو رہی ہیں یہ سبہی چاہتی ہیں کہ 2018ء میں جس طرح تحریک انصاف کو پلیٹ میں رکھ کر حکومت دی گئی ویسے ہی انہیں بھی دی جائے۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے قریبی حلقوں کا ماننا ہے کہ اس مرتبہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو سیاسی قوت جو بھی کرنا چاہے کر ڈالے، اسٹیبلشمنٹ کی اصل کارروائی انتخابات کے بعد سامنے آئے گی۔

اب جہاں تک پاکستانی سیاست کا تعلق ہے تو ایک تو انتخابات میں ابھی دن باقی ہیں دوسری طرف حکومت بنانے کیلئے ہر پارٹی تگ و دو کرے گی لیکن یہاں آخری دن تک معاملات بدلتے رہتے ہیں۔ حتی کہ انتخابی نتائج نہ آنے تک کچھ بھی پتا نہیں چلتا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف مفاہمت کیلئے مشہور صدر ن لیگ شہباز شریف ہیں اور بڑے میاں اگر انکا ساتھ دیتے ہیں۔ طلعت حسین نے اپنے وی لاگ کا تو عنوان بھی یہ دیا ہے کہ کیا محمد نواز شریف بھی شہباز شریف بن گئے؟ تو دوسری طرف سیاست کے کھلاڑی آصف زرداری ہیں اب دیکھنا ہے کہ انتخابات کے آخر تک کس کی سیاسی چال کامیاب ہو گی اور کون بازی الٹے گا۔ یقینا اس سوال کے جواب کیلئے انتظار کرنے کیساتھ ساتھ ایسی کئی مزید اندرونی کہانیاں آتی رہیں گی۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button