سیاست

خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے لیے مخصوص نشستوں پر آج تک کوئی خاتون رکن اسمبلی کیوں نہ بن سکی؟

 

مصباح الدین اتمانی

اقلیتی برادری سے  تعلق رکھنے والی 39 سالہ شہلا کامران چودہ سال کی تھی جب انہوں نے شہید بینظیر بھٹو سے متاثر ہو کر ایک جیالی کے طور پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لیکن بینظیر کی شہادت کے بعد وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئیں اور دسمبر 2021 کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے مرد حریف کو پانچ سو ووٹ کی واضح برتری سے ہرا کر لنڈی ارباب کے NC 72 سے جنرل کونسلر منتخب ہوئیں۔

شہلا رضا کا ماننا ہے کہ یہاں سیاست میں خواتین کو نظرانداز کر کے دیوار سے لگایا جاتا ہے اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں آج تک اقلیتی برادری کے مخصوص نشستوں پر کوئی خاتون رکن صوبائی اسمبلی نہ بن سکی۔

آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے دس اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں سندھ کی 9، پنجاب کی 8، بلوچستان کی 3 اور خیبر پختونخوا کی 4 سیٹیں شامل ہیں۔

2002 کی آئینی ترامیم کے مطابق مخصوص نشستوں پر اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کا حق متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیا گیا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے لیے مختص کی گئیں اِن چار نشستوں پر آج تک کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مسائل خواتین کے ہوتے ہیں

عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمرہارون بلور بھی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کا اسمبلی میں آنا بہت ضروری سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مسائل خواتین کے ہوتے ہیں۔ اگر ان کی نمائندگی خواتین کریں گی تو وہ بہتر طریقے سے ان مسائل کے حل میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ثمر ہارون بلور نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو خاندان کی طرف سے سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کا دعوی ہے کہ اب تک مخصوص نشست کے لیے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی کسی خاتون نے درخواست جمع نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی میں مخصوص نشست کے لیے بھی جنرل سیٹ کی طرح درخواست جمع کرنا ہوتی ہے: "ہماری پارٹی میں جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں، جو اہل امیدوار ہو گا اس کو ہم نامزد کریں گے۔”

شہلا رضا پرعزم ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات میں اقلیتی برادری کی مخصوص سیٹ پر رکن صوبائی اسمبلی بن کر خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ بدل دیں گی جس کے لیے انہوں نے مہم اور رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیاست کرنا اُن کا آئینی حق ہے جو اُن سے چھینا گیا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک یہاں خواتین کو برابر حقوق نہیں ملیں گے تب تک یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔

اگر شہلا رضا رکن اسمبلی بن گئی تو 

شہلا رضا نے بتایا کہ اگر وہ قانون ساز اسمبلی کی رکن بن گئیں تو اقلیتی برادری کے بے روزگار افراد کو روزگار دلانے اور محکمہ تعلیم اور قانون ساز اسمبلیوں میں ان کا کوٹہ بڑھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں اقلیتی برادری کے لوگوں کے اپنے گھر اور اپنے پیاروں کی آخری رسومات آدا کرنے کے لیے جگہ نہیں ہے: "ہم پاکستانی ہیں اور ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر موقع ملا تو اِن مسائل کے حل اور اقلیتی برادری کے روشن مستقبل کے لیے کام کروں گی۔”

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 46 ہزار 115 ہے جن میں سے مسیحی ووٹرز کی تعداد 33 ہزار 328 جبکہ ہندو ووٹرز 5 ہزار 25 اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 7 ہزار 762 ہیں۔

سوات کے 24 سالہ سرادر ہومی سنگھ پولیٹیکل ایکٹیوسٹ ہیں۔ وہ اقلیتی برادری کی مخصوص نشستوں پر خواتین کو نظرانداز کرنے کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے: "پہلے ہم اپنے نمائندے ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے تھے جو نہ صرف اہل اور بااختیار ہوتے تھے بلکہ ان کی بات بھی سنی جاتی تھی لیکن اب سیاسی جماعتیں ہم سے پوچھے بغیر من پسند افراد کو مخصوص نشستوں پر نامزد کرتی ہیں جو اقلیتی برادری سے زیادہ اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔”

ہومی سنگھ کے مطابق خواتین مردوں سے زیادہ باصلاحیت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار مل گیا تو اس سے نہ صرف ہمارے مسائل حل ہوں گے بلکہ اقلیتی خواتین کیلئے اسمبلیوں میں جانے کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں 4973 ہندو رہائش پزیر ہیں۔ اس طرح کل آبادی کی 0.21 فیصد آبادی مسیحی اور 0.03 فیصد آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے جبکہ سابقہ فاٹا میں 0.07 فیصد آبادی عیسائی اور 0.03 فیصد آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔

یہاں عورتوں کو لوگ آگے آنے نہیں دیتے۔ ہریندر دیوی

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ ہریندر دیوی آنے والے جنرل انتخابات کے لیے اپنے علاقے کی خواتین کو متحرک کر رہی ہیں اور شناختی کارڈ بنانے میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔

وہ کہتی ہین کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور یہاں عورتوں کو لوگ آگے آنے نہیں دیتے: "میری خواہش ہے کہ میں اسمبلی جا کر خواتین کے لیے قانون سازی کروں، ان کے مسائل پر بات کروں لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے میں جنرل الیکشن لڑ نہیں سکتی اور مخصوص نشستوں پر خواتین کو کوئی موقع نہیں دیتا۔”

ہریندر دیوی کے مطابق وہ پاکستان تحریک انصاف کی کارکن ہیں لیکن جب وقت آیا تو مقامی قیادت نے انہیں نظرانداز کیا، اب وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات آزاد حیثیت سے لڑیں گی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل خواتین ہی حل کر سکتی ہیں اس لیے خواتین کا اسمبلیوں میں جانا انتہائی ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اقلیتی برادری کے لیے مخصوص نشستوں پر اب تک کوئی خاتون ممبر صوبائی اسمبلی کیوں نامزد نہیں ہوئی؟ جب ہم نے یہ سوال الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل خان سے کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں مذہبی اقلیتی خواتین کا آنا یا نہ آنا سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے۔ اِس میں الیکشن کمیشن کا کوئی عمل دخل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک لسٹ فراہم کرتی ہیں جس کا صرف ہم نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں سال 2013 اور سال 2018 کے دوران بننے والی صوبائی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل تھی تاہم ان کے دور اقتدار میں بھی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مخصوص نشستوں پر نمائندگی کا حق نہیں ملا۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف پشاور کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات خالد خان سپاری نے بتایا کہ مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں مرکزی کور کمیٹی صوبائی قیادت کے مشاورت سے کرتی ہے، چونکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی اس وجہ سے ان کو مواقعے بھی نہیں ملتے۔ اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین متحرک ہوگی تو ہماری جماعت ان کو نمائندگی کا  پورا حق دیگی۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button