"خواتین اور اقلیتی برادری کی طرح خواجہ سراؤں کو بھی مخصوص نشست دیئے جائے”
نسرین جبین
خواجہ سرا کمیونٹی آج بھی معاشرتی رویوں، عدم تحفظ اور مالی مشکلات کے باعث کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آئین اور قانونی حق رکھنے کے باوجود نہ تو ایک عام پاکستانی کی طرح عملی طور پر ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں نہ الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی ایک ازاد اور خود مختار شہری ہونے کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔
اگرچہ حکومتی سطح پر ان کے لیے اقدامات تو کیے جاتے رہتے ہیں تاہم مجموعی طور پر خواجہ سرا اج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جنگ سروے کے مطابق نادرا کی جانب سے صرف 32 خواجہ سراؤ نے ایکس کارڈ حاصل کیے ہیں۔ خوذجہ سراؤں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اگر ایکس کارڈ بنا لیں تو ان سے وراثت کا حق چھن جائے گا لہذا کئی خواجہ سراؤں نے ایکس کارڈ حاصل نہیں کیے۔ جبکہ انتخابات میں ووٹ کے حق کے استعمال کے حوالے سے بھی وہ ہچکچاہٹ کا اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے ایکشن ایسوسی ایشن کی صدر فرزانہ کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو انتخابات کا حق تو دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر وہ اسے استعمال نہیں کرتے کیونکہ معاشرتی رویے انہیں عدم تحفظ کا شکار بنا دیتے ہیں۔ ان کی جگ ہنسائی کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت جس طرح خواتین کو مخصوص نشستیں دیتی ہے اور اقلیتی برادری کو بھی دیتی ہے اسی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی مخصوص نشستوں کا اعلان کرے تاکہ ان کی بھرپور نمائندگی قانون ساز اداروں میں ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ا انتخابات کے روز رجسٹریشن کے عمل کا علم ہی خواجہ سراؤ ں کو نہیں ہوتا اور پھر مرد اور خواتین پولنگ سٹیشنز پر بھی ان کے لیے مسائل ہوتے ہیں کہ وہ کس پولنگ سٹیشن میں اپنا ووٹ پول کرے۔
خواجہ سرا ایسوسی ایشن کی سربراہ ارزو کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں نہ تو ہمیں ٹکٹ دیتی ہیں اور نہ ہم پر اتنا بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں کہ ہم ان کے ٹکٹ پر جیت جائیں گے۔ جبکہ ہم خواجہ سرا ازاد حیثیت سے لڑنے کی نہ تو ہمت رکھتے ہیں اور نہ ہی حیثیت کیونکہ سیکیورٹی، معاشرتی رویے اور مالی مشکلات اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد 940 ہے جبکہ 2023 میں جو ڈیٹا ہے وہ مکمل طور پر کمپائل نہیں ہوا جس کی وجہ سے اعداد و شمار جاری نہیں ہوئے ہیں۔ تاہم قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار پر خواجہ سرا ایسوسی ایشنز اور کمیونٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو ماننے سے قطعی طور پر انکار کیا۔ انکا کہنا ہے ان کی تعداد بہت کم بتائی گئی ہے۔
خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل کے حل کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے بلیو وینز کے سربرا ہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ حکومتی طور پر تو اقدامات کیے جاتے ہیں تاہم سکیورٹی کا سب سے بڑا ایشو ان کے اپنے کمیونٹی سرکل میں ہے۔ خواجہ سراؤں کے قتل کی شرح میں اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ 90 فیصد قتل اپنے بوائے فرینڈز کی طرف سے ہو رہے ہیں اور یہ یہ تشدد جو ہے وہ ان کے اپنے سرکل کے اندر ہیں۔ معاشرتی رویوں میں اگرچہ تبدیلی ائی ہے لیکن وہ اب بھی غیر محفوظ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے باضابطہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ قانون سازی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی ہے اس کے لیے قانون سازی ہوئی رولز بھی بنائے گئے وفاقی شرعی عدالت نے وہ قانون کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب سپریم کورٹ ہی اس کے حوالے سے جو فیصلہ کرے گی یا ترامیم پیش کرے گی اس کے مطابق اس پر عمل درامد ہو سکے گا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے صوبائی سطح پر ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جن میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے دونوں دھڑوں کے سربراہان یعنی فرزانہ اور ارزو شامل ہیں جبکہ سول سوسائٹیز سے ایک قمر نسیم اور یو این ڈی پی سے اعجاز شامل ہیں۔ یہ کمیٹی صوبائی سطح پر پالیسی بنائے گی جس میں جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی ہے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں ایک محفوظ اور انسانی حقوق کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سہولیات کی فراہمی اور مسائل کے حل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایس ایس پی آپریشن نے ٹرانس جینڈرز کے لیے پشاور کے چار تھانوں میں ڈیسک بنایا ہے۔ اگرچہ تعیناتی تو نہیں ہو گی لیکن تھانوں میں ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کے لوگ بٹھائے جائیں گے تاکہ اگر ان کے حوالے سے کوئی کیس ائے تو وہ ان خواجہ سراؤں کو سہولت اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔
دوسری طرف قانون برائے تحفظ خواجہ سرا 2018 کے تحت خواجہ سرا افراد کے لیے حفاظتی مراکز اور محفوظ گھروں کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جہاں خواجہ سراؤں کے بچاؤ تحفظ اور بحالی کو یقین بنایا یقینی بنایا جائے گا۔ اور ان مراکز میں صحت کی سہولیات نفسیاتی دیکھ بھال مشاورت اور تعلیم بالغان کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ جبکہ ائین کے ارٹیکل 25 اے کے تحت خواجہ سراوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم ان میں سے کسی بھی شق پر عمل درامد نہیں ہو سکا اور کوئی عملی اقدامات نہیں ہو سکے۔ یہی وجہ ہے خواجہ سرا بشمول کم عمر خواجہ سرا گرو کے استحصالی اڈوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لیے سرکاری گھروں کا قیام ممکن بنایا جائے تاکہ ان کے استحصال میں کمی لائی جا سکے۔ انہیں ووٹ کے استعمال کے لیے سازگار ماحول تربیت اور سیاسی شعور فراہم کیا جائے انہیں پاکستان کے کارآمد شہری بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔