سیاست

خیبرپختونخوا میں زیادہ تر خواتین کے ووٹ ضائع کیوں ہو جاتے ہیں؟

 

سلمیٰ جہانگیر

کاغذ پر مہر لگانے کے بعد اسکو ہاتھ میں چھپا کر باہر لے آئی تاکہ اپنے شوہر کو دکھا سکوں کہ مہر درست جگہ پر لگایا ہے کہ نہیں۔ سلطانہ بی بی جنکا تعلق پشاور کے علاقے چمکنی سے ہیں 2018 جنرل الیکشن کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہے اس لئے انکو ووٹ ڈالنا نہیں آتا۔ لیکن گھر کے مردوں کے زیادہ اصرار کرنے پر وہ پولنگ سٹیشن گئی۔ جب وہ اندر گئی اور ووٹ پر مہر لگایا تو کاغذ کو ہاتھ میں چھپا کر باہر آئی تاکہ شوہر کو دکھا کر پتہ لگائے کہ درست جگہ پر نشان لگایا ہے کہ نہیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ جیسے ہی وہ باہر آئی تو سیکیورٹی والے نے وہ کاغذ ان کے ہاتھ سے لیا اور وہاں موجود پلاسٹک کے ڈبے میں ڈال دیا۔

خیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین یا تو بالکل بھی خواندہ نہیں ہیں یا کم پڑھی لکھی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان میں سے زیادہ تر یہ ارادہ رکھتی ہیں کہ وہ اس بار ضرور اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گی۔ تاکہ وہ اپنی پسندیدہ امیدوار کو کامیاب بنائیں کیونکہ جب وہ ووٹ کا حق ہی استعمال نہیں کریں گی تو کیسے ملک کے حالات بدلنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 میں خواتین ووٹرز کی تعداد  تقریبا 67 لاکھ تھی جبکہ 2023 میں یہ تعداد تقریبا 99 لاکھ کے قریب ہیں۔

محمد فہیم ایک صحافی اور تجزیہ نگار ہیں اورالیکشن کے معاملات پر کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کہانی صرف سلطانہ بی بی کی نہیں ہے ایسی ہی کتنی خواتین ہیں اول تو وہ ووٹ ڈالنے جاتی نہیں ہیں اگر جاتی ہیں بھی تو اکثر ووٹ کسی نا کسی غلطی کی وجہ سے ضائع کردیتی ہیں۔ دوسری اہم وجہ عمومی طور پر جتنی بھی پولیٹیکل کمپینز چلائے جاتے ہیں تو اس میں خواتین کبھی بھی کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے۔ یہ کہا تو جاتا ہے کہ خواتین 50 فیصد ہیں یا نصف سے زائد ابادی خواتین کی بنتی ہے لیکن سب کو پتہ ہے کہ خواتین زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتی تو جب بہت زیادہ ووٹ کاسٹ نہیں بنتی تو انتخابی منشور میں بھی خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا۔ تو جب خواتین کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کے انتخابی منشور میں تھوڑا بہت برکت کے لیے ڈالی جائیں گی کہ بس ایک دو چار پوائنٹس ڈال دیجیے تو پھر وہ خواتین ووٹرز کی بھی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔

محمد فہیم بتاتے ہیں کہ خواتین کو پہلے ووٹ ڈالنے کے لئے ان کی دلچسپی کو بڑھانا ضروری ہیں اور اس کے لئے سیاسی پارٹی کو ان کے لیے پلان لے کر آنا ہوگا۔ اپنی جانب راغب کرنے کے لئے پلان جب لایا جائے تو پھر تمام ووٹر خواتین گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالیں گی۔

فہیم کے مطابق عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ مردوں کا انفلوئنس بہت زیادہ ہوتا ہے تو امیدوار، پولیٹیکل پارٹیز وہ مردوں کو ہی اپروچ کرتے ہیں۔ انہیں کو انفلوئنس کرتے ہیں اور پھر انہیں کے ذریعے ان کے گھر کی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ پولنگ سٹیشن جاکرکسی بھی امیدوار کو ووٹ دیں۔ خواتین یہی کرتی ہے کہ گھر کے مرد نے کہا ہے کہ اس پارٹی کو یا فلاں امیدوار کو ووٹ دو تو اسی کودرست طریقے سے ہو یا غلط ووٹ ڈال کر چلی جاتی ہیں۔ ان کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کوئی آگاہی پروگرام نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں ووٹ ضائع ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

فہیم کا کہنا ہے کہ جب تک یہ امیدوار ان خواتین کے حوالے سے کوئی آگاہی پلاننگ لے کر نہیں آئیں گے علاقائی سطح پر انہیں ایڈریس نہیں کریں گے۔ ان کے لیے کوئی اعلان نہیں کریں گے کوئی ترجیح نہیں دیں گے تو خواتین کا رویہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ غلط  طریقے سے ووٹ دیں گی یا پھر وہ ووٹ دیں گی ہی نہیں۔ یسی لئے مردوں کی نسبت خواتین کی ووٹ پولنگ کافی کم ہے۔

سیاسی پارٹیوں کی کتنی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ خواتین کے لئے آگاہی ورکشاپ کا بندوبست کریں یا واقعی محمد فہیم کے مطابق منشور میں خواتین کے لئے کچھ نہیں ہوتا اس حوالے سے اے این پی خیبرپختونخوا کے صوبائی صدر سردار حسین بابک کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتی ہیں کہ وہ خواتین کی تربیت کریں تاکہ کوئی ووٹ ضائع نا ہو۔ ان کی خواتین ورکرز علاقائی سطح پر خواتین کو اکٹھا کر کے آگاہی مہم چلاتی ہیں لیکن ووٹ ضائع ہونے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ جیسے تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ اس بیلٹ میں پردہ اور علاقائی رسم و رواج وغیرہ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔

سردار حسین بابک کے مطابق زیادہ زمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے خواتین کی تربیت کریں تاکہ جو خواتین ووٹ ڈالنے کو اہمیت نہیں دیتی وہ بھی راغب ہو سکے۔ اور جو اپنے گھروں سے ووٹ سٹیشن تک آتی ہیں اتنی اوئیر ہو کہ ووٹ پول کرنے میں کوئی غلطی نا کریں اور انکا ووٹ ضائع نا ہو سکے۔

دوسری جانب انتخابات میں بطور پولنگ آفیسر ڈیوٹی سرانجام دینے والی مہناز کریم نے بتایا کہ پچھلے انتخابات کے دوران انکے ساتھ بہت ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب انکے سٹیشن پر ایک عمر رسیدہ خاتون  اپنا ووٹ  ڈالنے آئی۔ اور انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ کس نشان پر مہر لگانا ہے۔ مہناز نے بتایا کہ خاتون کسی انتخابی نشان کا نام پشتو میں  لے رہی تھی جو کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خاتون کے باہر جانے پر پولنگ سٹیشن کے باہر لڑائی  شروع  ہوئی کہ خاتون کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا جس سے بد نظمی پھیل گئی۔

صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام ووٹرز کو انتخابی شعور دیتے ہیں اور ساتھ میں انتخابی ایجوکیشن بھی۔

الیکشن کا میڈیا ونگ مسلسل مختلف تربیتی مہم میڈیا پر چلاتے ہیں۔ پشاور اور خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں یہ سلسلہ شروع ہے اور اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اگاہی دیں۔ تعلیمی اداروں میں یہ بطور خاص ان کو ا ایک موک پول ایکسرسائز دیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک طرح سے اس پروسس سے یوز ٹو ہو جائے۔ یہ ایک بہت بڑا ایکسرسائز ہوتا ہے لیکن کچھ ناخواندگی کے مسائل بھی ہیں ان لوگوں اور خاص کر خواتین میں شعور نہیں ہے۔ سول سوسائٹی ، میڈیا،  الیکشن کمیشن  اور دیگر ادارے مل کر ووٹرز کو آگاہی دے رہے ہیں کہ ووٹ کس طرح ڈالنا ہے۔

آگاہی پیدا کرنے کے لیے پہلی دفعہ پروونشل ووٹرز ایجوکیشن کمیٹی کا قیام خیبر پختونخوا میں عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کا ایک اجلاس بھی ہوا ہے۔ اس میں مختلف ڈیپارٹمنٹس، سول سوسائٹی ارگنائزیشنز کے نمائندوں نے شرکت کی اور اسی بات پہ اجلاس میں اتفاق کیا کہ ووٹنگ ٹرن اوٹ کو کیسے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین ووٹرز کو ووٹ کی اگاہی کی ضرورت ہے اورالیکشن کمیشن اس پہ کام کر رہا ہے۔

ترجمان کے مطابق پورے صوبے میں جنوری 2021 سے لیکر اگست 2023 تک ان کی میڈیا ٹیم نے تقریبا 366 کے قریب سیشنز کیے ہیں جس میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ بیداری اشتہارات مختلف ٹی وی اور ریڈیو سے چلائے جاتے ہیں تاکہ صوبے کے دور دروز علاقوں کے لوگ  اور خاص کر خواتین سن اور دیکھ سکیں۔

صوبائی صدر سردار حسین بابک کے مطابق انکی پارٹی ہر الیکشن مہم میں پارٹی پروموشن کے ساتھ ساتھ ووٹرز آگاہی مہم بھی چلاتی ہیں اور تقریبا روزانہ کہی نا کہی پر باقاعدہ ورکشاپ ہوتی ہیں وہ زیادہ تر شہر سے دور دروز علاقوں میں کسی علاقائی مشر کے گھر میں کرتے ہیں جہاں پر تمام گاوں کی خواتین کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور پارٹی ورکرز ووٹ کاسٹ کرنے کی تمام تربیت دیتے ہیں۔

خواتین کی کم ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے صوبائی صدر نے کہا کہ ناخواندہ ہونا صرف وجہ نہیں ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ پڑھی لکھی خواتین سے زیادہ ناخواندہ ووٹ کاسٹ کرتی ہیں۔ لیکن اس صوبے میں رسم و رواج زیادہ حائل ہی۔ں خواتین کو چاردیواری تک محدود رکھا گیا ہے۔ زیادہ تر مرد روایات اور مذہب خواتین کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں مرد زیادہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کی خواتین باہر جا کر ووٹ کاسٹ کریں اس لیے یہاں خواتین ووٹرز کی تعداد بہت کم ہیں۔

اسکے باجود تمام سیاسی پارٹیوں کی یہ کوشش ہوتی ہیں کہ خواتین ووٹ پول کریں۔ اس مقصد کے لئے باقاعدہ ٹرانسپورٹیشن کی سہولت دی جاتی ہے تاکہ خواتین آسانی کے ساتھ پولنگ سٹیشن جا سکے اور ووٹ کا حق استعمال کریں۔

ترجمان صوبائی الیکشن کمیشن سہیل کے مطابق خواتین ووٹرز  کی تعداد بڑھانے کے لیے الیکشن کمیشن نے نیا قانون بنایا ہے جس کے مطابق اس حلقے کے نتائج کو مسترد کیا جاتا ہے جہاں 10 فیصد سے کم خواتین نے ووٹ پول کیے ہو۔ اسکے ساتھ الیکشن کمیشن ہمیشہ خواتین پولنگ سٹیشن کے انتخاب میں اس بات خیال رکھتا ہے کہ پولنگ سٹیشن گھر کے ساتھ نزدیک ہو اور خواتین کسی بھی وقت آکر ووٹ پول کر سکیں۔ کیونکہ خواتین زیادہ تر گھر کا کام کاج ختم کرکے ووٹ کے لئے آتی ہیں۔ دوسری اہم بات پختونخوا کی کی خواتین مرد کے بغیر اکیلی باہر جا نہیں سکتی اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ قریب ہی کوئی پولنگ سٹیشن ہو اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے خواتین ووٹ کے حق سے محروم نا ہوجائے۔

تربیتی ورکشاپ یا اشتہار جو الیکشن کمیشن میڈیا اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے دی جاتی ہیں اس کا کسی خاتون کو کوئی فائدہ بھی پہنچا ہے کہ نہیں۔ اس حوالے سے بخت پری جن کی عمر 46 سال ہیں کہتی ہیں کہ ان کے علاقے بڈھ بیر میں ٹی وی سے زیادہ خواتین ریڈیو سنتی ہیں۔ وہ ہر پروگرام شوق سے سنتی ہیں وہ گزشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے پہلی مرتبہ گئی تھی۔ انتخابی اشتہارات دیکھے اور سنے تھے لیکن عملی طور پر پہلی مرتبہ کسی الیکشن سنٹر گئی تھی اور آگاہی مہم کی بدولت اس نے درست طریقے سے اپنا ووٹ پول کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ جس طرح سنا یا دیکھا تھا وہی کیا جیسا کہ مہر لگانے کے بعد کس طرح پرچی کو فولڈ کرتے ہیں تاکہ نشان کسی دوسری جگہ یا دوسری انتخابی نشان پر لگ نا جائے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button