"پاکستان میں بغیر اسناد کے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ غیر انسانی ہے”
خالدہ نیاز
پاکستان میں غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یکم نومبر سے پہلے تک ان کے پاس وقت ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور اس کے بعد انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف "پروف آف رجسٹریشن” والے افغان مہاجرین سکونت کے اہل ہوں گے جبکہ باقاعدہ قانونی ویزے والے افغان شہری بھی پاکستان کا سفر کرسکیں گے۔
نگران وزیر داخلہ نے بتایا کہ پاکستان میں اندازاً 44 لاکھ افراد غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہری ہیں، ان میں سے 14 لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت ہے، افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے ساڑھے 8 لاکھ افراد ہیں اور غیر رجسٹر شدہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانی 17 لاکھ سے زائد ہیں۔
پاکستان میں رہائش پذیر افغان باشندوں نے حکومت کے اس فیصلے کو غیرانسانی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلے کا پرامن حل نکالا جائے۔ ایک افغان باشندے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ غیر انسانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے بعد لاکھوں افغانیوں نے ملک سے ہجرت کی۔ کچھ یورپ چلے گئے تو کچھ دوسرے ممالک جبکہ زیادہ تر لوگوں نے پاکستان کا رخ بھی کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ زیادہ تر افغان مہاجرین غیرقانونی طریقے سے طورخم، چمن اور دوسرے بارڈرز پر ہزاروں روپے رشوت دیکر آتے ہیں لیکن جب ان سے سارے پیسے بٹور لیے جاتے ہیں تب انکو یہاں سے نکالنے کی بات کی جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بارڈرز پر غیرقانونی مائیگریشن کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ یو این ایچ سی آر کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل ڈھونڈے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کے اپنے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہے لوگ حکمرانوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن افغان باشندوں کو اس طرح ملک بدر کرنا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں مقیم افغان باشندوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ صحیح نہیں ہے انکے ساتھ صحیح سلوک کرکے پاکستان اپنے لیے بہترین سفیر بنا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان باشندے بے ضرر لوگ ہیں جو خود جانے بچانےکی خاطر یہاں آئے ہیں وہ کسی کو کیا نقصان پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات بھی مانتے ہیں حکومت پاکستان یہ حق رکھتا ہے کہ کسی کو ملک چھوڑنے کا کہے لیکن اس کے لیے بھی انکو ان لوگوں کو کم از کم ایک سال کا وقت تو دینا چاہیے۔
دوسری جانب پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی میں افغان دہشتگردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق افغان دہشتگرد پاکستان میں عرصے سے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ملک میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں بھی افغان دہشتگردوں کا ہاتھ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
سرکاری ذرائع کا بتانا ہے کہ چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغانی تھے۔ ذرائع کے مطابق 12 مئی 2023 کو مسلم باغ میں ہوئے حملے میں تحریک طالبان افغانستان کے 5 دہشتگرد ملوث تھے، 12 جولائی 2023 کو ژوب کینٹ پردہشتگردوں کے حملے میں 5 میں سے 3 افغانی دہشتگرد تھے جب کہ 30جنوری 2023کوپولیس لائنز پشاور کے خودکش حملہ آوروں کا تعلق بھی افغانستان سے تھا اور 29 ستمبر 2023 کو ہنگو میں خودکش حملہ آوروں کا تعلق بھی افغانستان سےتھا۔