عمران خان کے دو ساتھیوں کا مقابلہ: پرویز خٹک کیسے جہانگیر ترین سے مختلف؟
محمد فہیم
پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک توڑنے کیلئے پرویز خٹک آج ڈیرہ اسماعیل خان میں میدان سجائیں گے۔ اس حوالے سے بھرپور مہم چلائی گئی اور کئی روز کی کارنر میٹنگز کے بعد آج ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین جلسہ کریگی۔ یہ پہلا جلسہ نہیں ہے اس سے قبل اس نئی پارٹی نے دو جلسے کئے ہیں۔ ایک جلسہ نوشہرہ جبکہ ایک مانسہرہ میں کیا گیا۔ نوشہرہ پرویز خٹک کا آبائی علاقہ تھا اس لئے انہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تاہم مانسہرہ میں جہاں انہیں بڑے کراﺅڈ کو اکٹھا کرنے میں مشکل پیش آئی وہیں مقامی لوگوں کا سخت ردعمل بھی رکاوٹ بنا رہا۔
مانسہرہ میں پرویز خٹک کے قافلے کے راستے میں شہری ہاتھوں میں لوٹا تھامے کھڑے رہے جبکہ کئی مقامات پر بھی لوٹے لٹکائے گئے تاہم اس کے باوجود جلسہ کیا گیا۔ ڈی آئی خان میں آ ج ہونیوالے جلسے سے قبل جو بینرز اور پینا فلکس لگائے گئے تھے ان بینرز پر موجود پرویز خٹک اور محمود خان کی تصاویر پر سیاہی پھینک دی گئی جو واضح کرتا ہے کہ ڈیرہ میں بھی پی ٹی آئی کیلئے جلسہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
سابق وزیر اعلیٰ اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی کا ووٹ بینک توڑنے کیلئے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین کے نام سے نئی پارٹیاں بنائی گئیں۔ ان پارٹیوں میں مشترک بات یہ ہے کہ دونوں ہی عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے بنائی ہیں تاہم دونوں کی اب تک کی سرگرمیوں میں فرق واضح ہے۔
اس حوالے سے سینئر صحافی اور انڈیپینڈنٹ اردو اسلام آباد کے نامہ نگار عبداللہ جان کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک دو الگ الگ طریقہ کار اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پرویز خٹک گراس روٹ لیول کے سیاست دان ہیں۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں کی سیاست کی۔ سابق وزیر اعلیٰ رہے اسی لئے عوام کی جانب سے شدید ردعمل کے باوجود وہ عوام کے پاس ہی جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب استحکام پاکستان پارٹی بڑے ناموں کی جماعت ہے وہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں اور اب تک ہمیں استحکام پاکستان پارٹی کا عوامی اجتماع دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ عبداللہ جان کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کو بلاشبہ مشکلات درپیش ہیں لیکن وہ گراﺅنڈ پر اپنے لئے حمایت تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہی پرویز خٹک اور جہانگیرترین کا بنیادی فرق ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین میں سابق وزیر اعلیٰ محمود خان، سابق مشیر ضیاءاللہ بنگش، سابق وزیر اشتیاق ارمڑاوراقبال وزیر سمیت 30سے زائد سابق ممبران پارلیمان شامل ہیں۔ اس نئی جماعت کو پی ٹی آئی کے ورکرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ دوسری جانب استحکام پاکستان پارٹی بڑے بڑے ناموں کے باوجود اثر قائم نہیں کرسکی ہے۔
استحکام پاکستان کے حوالے سے لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مبشر بخاری کہتے ہیں کہ استحکام پاکستان پارٹی لانچ ہونے سے پہلے ہی بیٹھ گئی ہے۔ پارٹی میں عہدوں اور مہم کے معاملے پر علیم خان اور جہانگیر ترین کے اختلافات اب واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب ٹکٹوں کے تقسیم کس طرح ہوگی اور پارٹی کس طرح آگے بڑھے گی اس حوالے سے بھی پارٹی کی کوئی سمت نظر نہیں آرہی ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پرویز خٹک کی سمت واضح ہے۔ خیبر پختونخوا میں انتہائی مشکل صورتحال کے باوجود وہ عوام سے رابطہ کررہے ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ انہیں مل سکتا ہے۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کا موازنہ کیاجائے تو پرویز خٹک عوامی رابطوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں جبکہ ان کے پاس الیکٹیبلز بھی موجود ہیں۔ پرویز خٹک حلقے کی سیاست کرنا جانتے ہیں اور حلقے کیسے بنانا ہے عوام کے ساتھ رابطہ کیسے رکھنا ہے اور کس طرح عوام کے ردعمل کا سامناکرنا ہے یہ پرویز خٹک بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔