خیبر پختونخوا کی تین بڑی جماعتوں کو بڑے خطرات کا سامنا کیوں؟
محمد فہیم
خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں اتوار کے روز جمعیت علمائے اسلام کے سیاسی اجتماع پر ہونے والے خود کش حملے نے نئی بحث کو جنم دیدیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام باجوڑ سمیت پورے قبائلی خطے میں مسلسل ٹارگٹ پر ہے اور ان کے خلاف بین الاقوامی تنظیم ‘داعش’ نے بیشتر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ باجوڑ میں ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمہ داری بھی داعش نے ہی قبول کی ہے اور انہوں نے اپنے نئے پیغام میں جمعیت علمائے اسلام پر مزید حملوں کی بھی دھمکی دی ہے۔
ڈیڑھ سال کے دوران صرف باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے 23 علمائے کرام کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ 2016 سے اب تک جمعیت علمائے اسلام کے 40 سے زائد علماء کو مار دیا گیا ہے۔ ان حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں قتل کئے جانے والوں کی تعداد میں اگر باجوڑ دھماکے کے افراد بھی شامل کرلئے جائیں تو یہ ایک بڑی تعداد بن جائے گی جبکہ جمعیت علمائے اسلام پر وزیرستان میں بھی ایسے ہی حملے ہوئے جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی اور اس کے بعد ایک دھرنا بھی دیا گیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن پر حملے کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے اور اگر دیکھا جائے تو صوبے کی تین بڑی جماعتیں کسی نہ کسی صورت بڑے اجتماعات کے انعقاد سے محروم ہو گئی ہیں۔ صوبے میں ساڑھے 9 سال تک حکومت کرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو اس وقت 9 مئی کے احتجاج کے بعد بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کسی بھی سیاسی تقریب کا اہتمام نہیں کرسکتی کیونکہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے رہنماﺅں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں ایسے میں نہ تو رہنما باہر نکل رہے ہیں اور نہ ہی وہ بڑے اجتماعات کا انعقاد کرسکتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام اس وقت یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ وہ آئندہ حکومت بنانے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے اور اسے عوام کی حمایت حاصل ہے تاہم داعش کے نشانے پر ہونے کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے لیے جلسے اور جلوس کرنا آسان نہیں ہو گا جبکہ باجوڑ دھماکے نے ان کے لیے مسائل بھی کھڑے کر دئے ہیں۔
تیسری جماعت جو حکومت بنانے کا دعویٰ رکھتی ہے وہ ہے عوامی نیشنل پارٹی۔ اے این پی کو 2008 میں حکومت بنانے سے اب تک مسلسل تحریک طالبان سے خطرات لاحق ہیں اور اسے بھی کھل کو انتخابی مہم چلانے کا سازگار ماحول میسر نہیں آسکے گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عبداللہ جان کہتے ہیں کہ جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں تو کسی جماعت کے لیے حالات سازگار اور کسی کے لیے خراب ہوتے ہیں۔ 2013 میں سازگار ماحول پی ٹی آئی کیلئے تھا انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اس بار تین بڑی جماعتوں کیلئے ماحول سازگار نہیں ہے جو واضح ہے لیکن کیا دیگر جماعتیں اس ماحول کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں؟ ایسا کہنا شائد قبل از وقت ہو گا۔
عبداللہ جان کہتے ہیں کہ ابھی انتخابات میں وقت کافی ہے اور جب تک سیاسی جماعتوں کے امیدوار سامنے نہ آجائیں اور باقاعدہ انتخابی مہم نہ شروع ہوجائے انتخابی ماحول کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا تاہم اگر ابھی کی صورتحال دیکھی جائے تو تین بڑی جماعتوں کیلئے مسائل موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے موجودہ حالات میں بڑی تعداد میں شمولیتیں کرلی ہیں۔ خیبر میں تحریک اصلاحات پاکستان کی پوری جماعت ہی مسلم لیگ (ن) میں ضم ہو گئی۔ اسی طرح سوات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ناراض گروپ نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی جبکہ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے میئر کیلئے امیدوار شیر رحمن بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام پارٹی میں شمولیت کیلئے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور پرامید ہیں کہ وہ عام انتخابات میں بڑی تعداد میں نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ داعش کا نظریہ مقامی نہیں ہے، یہ شام اور عراق سے آیا ہے۔ اگر یہ نظریہ آگ پکڑتا ہے تو دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور جمہوریت پسند جماعتوں کیلئے مسئلہ بڑھے گا۔
ان کے مطابق جمعیت کی جو تاریخ ہے اس کے مطابق وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہے بلکہ اس حملے کو سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جاسکے گا، یہ واقعہ جمعیت بھولنے نہیں دے گی اور انتخابی عمل میں مزید تیزی لائے گی۔
باجوڑ میں دھماکے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں جلسے کیلئے جو طریقہ کار وضع ہے وہ پورا نہیں کیا گیا محکمہ داخلہ نے جو مراسلہ لکھا ہے وہ دراصل پہلے سے موجود طریقہ کار کو لازمی بنانا ہے۔