سیاست

افغانستان میں تعلیم کے بعد اب خواتین کے بناو سنگھار پر بھی پابندی

 

خالدہ نیاز

طالبان ملک میں امن کے قیام اور لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے البتہ خواتین سے بنیادی حقوق چھین رہے ہیں، کیا اب افغان خواتین میک اپ کے لیے بھی دوسرے ممالک جایا کریں گی؟

یہ کہنا ہے 22 سالہ سعدیہ (تبدیل شدہ نام) کا جو ننگرہار سے تعلق رکھتی ہیں۔ سعدیہ نے ٹی این این کو بتایا کہ جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے تب سے خواتین کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ پہلے خواتین کے سکولز بند کئے گئے، پھر کیا گیا کہ خواتین بغیر محرم کے گھر سے نہیں نکلیں گی اور اب بیوٹی سیلونز پر پابندی لگادی گئی۔

خیال رہے گزشتہ روز افغانستان میں طالبان کی حکومت نے تمام بیوٹی سیلونز کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل سمیت افغانستان کے دیگر علاقوں میں تمام بیوٹی سیلونز بند کردیں۔

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان محمد صادق عاکف نے منگل کو جاری بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے بیوٹی سیلونز کو بند کرنے کے لیے صرف ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔

اس سے قبل طالبان نے لڑکیوں کے ہائی سکولز اور یونیورسٹی جانے پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ملازمت کرنے، عوامی مقامات اور جم جانے پر بھی پابندی لگائی تھی۔

سعدیہ نے کہا کہ ساری پابندیاں خواتین پر ہی کیوں لگا جارہی ہے کہ خواتین یہ نہ کریں وہ نہ کریں کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ مرد یہ نہ کریں۔ سعدیہ نے بتایا کہ طالبان نے خواتین اور باقی لوگوں کے فلاح وبہبود کے لیے کچھ نہیں کیا، ملک میں حالات بہت خراب ہے، لوگ معاشی طور پر کمزور ہوچکے ہیں لیکن اس کی پروا ہی نہیں ہے انکو۔

سعدیہ نے کہا کہ بیوٹی سیلونز پرپابندی لگانا انکی سمجھ سے باہر ہے، خواتین اگر پردے میں جاکر بیوٹی سیلون میں میک اپ وغیرہ کرتی ہیں تو اس میں کیا ہے۔ اگر کسی لڑکی شادی ہوگی تو کیا وہ میک اپ کروانے کسی دوسرے ملک جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیوٹی سیلونز پرپابندی ہٹانی چاہئے اور اس کے علاوہ خواتین کو تعلیم اور باقی بنیادی سہولیات بھی دینی چاہیے۔

بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلونز پر پابندی کی وجہ سے ساٹھ ہزار تک خواتین بے روزگار ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل میں تین ہزار سے زائد جبکہ ملک کے باقی حصوں میں 12 ہزار سے زائد بیوٹی سیلونز موجود ہے اور ہر سیلون میں 5 سے 6 تک خواتین کام کرتی ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یوناما نے کہا ہے کہ یہ پابندی خواتین کو حقوق دینے کے منافی اور اس کے معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہونگے۔

خیال رہے اگست 2021 میں جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ خواتین پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کریں گے تاہم آہستہ آہستہ طالبان کچھ ایسے قوانین سامنے لا رہے ہیں، جس سے خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والی عائشہ نے بتایا کہ طالبان کے آتے ساتھ ہی خواتین کے لیے زندگی اجیرن ہوگئی ہیں۔ خواتین کے لیے تفریح کے کوئی مواقعے نہیں ہے اور ان پر تعلیم کے دروازے بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ حالیہ پابندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بیوٹی سیلونز سے کسی کا کیا بگڑتا ہے اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا پتہ نہیں طالبان نے کس سوچ کے تحت بیوٹی سیلونز پر پابندی لگادی ہے۔

اس سے قبل افغانستان میں طالبان نے خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ طالبان نے کہا تھا کہ وہ خواتین جو 72 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے مرد رشتہ دار کا ہونا ضروری ہے، مرد کے بغیر وہ سفر نہیں کر پائیں گی۔ طالبان نے گاڑی مالکان کو بھی خبردار کردیا تھا کہ وہ کسی بھی خاتون کو جو بغیر حجاب کے ہو اپنی گاڑی میں نہ بٹھائیں۔

 

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button