صوبائی بجٹ: سیکرٹریٹ ملازمین کے الاؤنس میں 100 فیصد تک اضافہ، بوجھ کس پر پڑے گا؟
عبدالحیکم مہمند
خیبر پختونخوا کی نگران صوبائی کابینہ نے عبوری بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں 35 ارب روپے سے زائد منطوری دیدی جس میں سیکرٹریٹ ملازمین کے الاونس میں 100 فیصد تک اضافہ کرنے کی تجویز بجٹ میں شامل ہے تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اضافہ کا بوجھ مالی بحران کا شکار صوبائی خزانے پر پڑے گا۔
بجٹ دستاویز کے مطابق گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
نگران مشیر خزانہ خیبر پختونخوا حمایت اللہ خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صرف سیکرٹریٹ ملازمین کے الاؤنس میں 100 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز بجٹ میں شامل ہے اور اس سے قبل یہ الاؤنس سیکریٹریٹ ملازمین 50 فیصد وصول کر رہے تھے۔
اس حوالے سے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فضل واحد کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کا یہ فیصلہ درست نہیں کہ چند محکموں کے ملازمین کو نوازنے کے لئے سیکریٹریٹ الاؤنس کے نام سے تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ اور دوسرے محکموں کے ملازمین کو نظر انداز کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے فیصلے سے ملازمین میں احساس کمتری پیدا ہو گی، ان کی طرز زندگی پر برے اثرات مرتب ہوں گے جبکہ یہ امتیازی سلوک ہے جس سے محکموں کے ملازمین میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس فیصلے سے صوبے کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ تو انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے پاس پہلے ہی سے تنخواہوں کی ادائیگی کے پیسے نہیں اوپر سے اربوں روپے کے اضافی بوجھ سے صوبہ مزید مالی بحران شکار ہوجائے گا۔
ڈاکٹر فضل واحد نے حکومت کے اس فیصلے کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے سے صوبائی خزانے پر پیدا ہونے والے بوجھ کو عوام پر مزید ٹیکسز لگانے سے ہی پورا کیا جائے کیونکہ بجٹ میں محاصل کے لئے کوئی دوسری نئی پالیسی واضح نہیں کی گئی ہے اور ممکن نہیں کہ عوام ٹیکس کے بوجھ کو مزید برداشت کر سکیں گے۔
آل اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ آفیسر ایسوسی ایشنز کے صدر آمین خان نے بھی سیکریٹریٹ الاؤنس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ نگران حکومت نے ظلم کیا کیونکہ اپنے قریب بیٹھنے والے منظور نظر ملازمین کو نوازا گیا، ان ملازمین نے نگران حکومت سے غلط فائدہ اٹھایا اور ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو دیوار سے لگا دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کی اس تجویز سے ڈائریکٹریٹ ملازمین میں بے چینی پھیل گئی ہے اور ان میں احساس کمتری پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ڈائریکٹریٹ کے ملازمین سیکریٹریٹ کے ملازمین کے شانا بشانہ کام کرتے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں سیکریٹیریٹ الاؤنس کی بجائے ڈائریکٹریٹ الاؤنس ہونا چایئے تھا۔
ٹی این این نے ایک عام شہری جس نے اپنا نام گل ستار خان بتایا سے بجٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا ہے۔ ان کا آپس میں مل میلاپ ہے بس جو ان کی مرضی وہ فیصلے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غریب آدمی کے لیے آٹے، دال چینی اور دیگر اشیاء خوردونوش کی خریداری محال ہو گیا ہے۔ حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی فکر ہے مگر غریب آدمی کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔