سیاستکالم

وزارت عظمیٰ کی ہنڈیا چولہے پر

ابراہیم خان

پاکستان تحریک انصاف 9 مئی سے پہلے جب تک میدان میں تھی اس وقت تک عام انتخابات ہوتے دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے، 9 مئی کے بعد تحریک انصاف چت ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کی لیول پلیئنگ فیلڈ کی خواہش بھی ایسی پوری ہوئی کہ وہ جماعت جو کچھ عرصہ پہلے پنجاب میں انتخابات کے بائیکاٹ کی باتیں کررہی تھی تو اب اس نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کیلئے درخواستیں طلب کرلی ہیں۔

مریم نواز جلسوں میں خاصی چہک رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ تحریک انصاف کی کرچیاں ہوگئی ہیں لیکن ان کی گھن گھرج تحریک انصاف اور ان کے قائد عمران خان کے مکمل ہی نہیں ہوتی۔ ان کو شائد کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اس نام ( عمران خان) پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ بہرحال وہ بھی خوش ہیں اور ان کے ابو بھی مسرور ہیں۔ نو مئی کے بعد ایک درجن سے زائد جماعتیں خوش ہوگئیں اور اب یہ جماعتیں مزید خوشیاں سمیٹنے کیلئے بے تاب ہیں، قائدین کے دلوں میں دبی خواہشات کی چنگاریاں سلگنے کو تیار ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پی ڈی ایم کی جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو گئی تھیں۔ ان جماعتوں نے یہ شراکت تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے خلاف قائم کی تھی، لیکن اب تو تحریک انصاف کے ہی حصے بخرے ہوگئے۔

پاکستان تحریک انصاف ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اس شراکت داری کی غرض وغایت پوری ہوچکی۔ اب شراکت کی یہ ہنڈیا جلد یا بدیر پھوٹنے والی ہے۔ یہ جماعتیں جو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سینہ سپر تھیں جلد ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوں گی۔ یہ سلسلہ کب شروع ہوگا اس کیلئے کوئی لگی بندھی ڈیڈ لائن تو نہیں دی جاسکتی لیکن آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان فیصلہ ہوتے ہی اس بین الاالجماعتی اتحاد کی محبت کھل کر سامنے آجائے گی۔ یہ جماعتیں کھل کر تو اس وقت ایک دوسرے کے پول کھولیں گی جب یہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گی،لیکن ابھی جو کھچڑی پک رہی ہے کہ ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟

وزارت عظمیٰ کی یہ خواہش جمیعت اہلحدیث یا اس جیسی کوئی دوسری چھوٹی جماعت تو نہیں کرسکتی۔ یہ خواہش مسلم لیگ ن(ن) یا پیپلز پارٹی ہی کرسکتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے حصول کا یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہے۔ اس مقابلے میں پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری نے جو بساطِ بچھائی تھی اس کے نتائج اب مسلم لیگ (ن) بھگتے گی جبکہ ثمرات پاکستان پیپلز پارٹی سمیٹے گی۔ وزارت عظمیٰ کی اس دوڑ میں آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر پہل کردی ہے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم کی مسند پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا ہمیشہ سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ بہت نیچے جاکر بڑا سوچتے ہیں اور پھر اپنا ہدف حاصل بھی کرلیتے ہیں۔ اب کی بار بھی انہوں نے بڑی معصومیت سے پہلے خود اس خواہش کا اظہار کر دیا اور پھر سابق وزیر اعلی پنجاب منظور حسین وٹو نے تو میڈیا پر آکر آصف علی زرداری کی طرف سے گویا یہ دلیل دے ڈالی کہ اگر پی ڈی ایم کی حکومت میں پیپلز پارٹی، شہبازشریف کو بطور لیگی وزیراعظم قبول کرسکتی ہے تو پھر نواز لیگ کو بھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے درمیان یہ بات یقیناً ہوچکی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نواز لیگ نے وزارت عظمیٰ کے معاملے پر ہونٹ سی رکھے ہیں۔ اس کی طرف سے پہلے تو خاموشی اپنائے رکھی گئی، لیکن ہفتہ رفتہ کے دوران وفاقی وزیر جاوید لطیف بہت معصومیت سے یہ فرمائش کرڈالی کہ نوازشریف کی ملک کیلئے اتنی زیادہ خدمات ہیں تو اس کے بدلے اگر انہیں چوتھی بار بھی وزیراعظم بنا دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ جاوید لطیف کی اس بات میں درخواست کے ساتھ ساتھ گویا ایک حق جتانے والا معاملہ بھی ہے۔ یہی کیفیت منظور وٹو کی بات میں زیادہ شدت سے دکھائی دیتی بلکہ وہ تو کہہ رہے ہیں اب مسلم لیگ کے پاس احسان چکانے کا وقت آگیا ہے۔ ان دوطرفہ دلائل کی جھلکیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے حصول میں سنجیدگی تو دونوں طرف سے ہے، لیکن دونوں میں سے کس نے اپنا ہوم ورک اچھے انداز سے کیا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے اپنی شہرت کے مطابق "روڈ ٹو پرائم منسٹر شپ” کیلئے اپنا ہوم ورک بہت اچھے انداز سے کیا۔ پی ڈی ایم کی سانجھے داری بنی تو روز اول سے آصف علی زرداری نے یہ موقف اپنایا کہ شہباز شریف چونکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں تو پھر کسی بھی کامیاب ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں متحدہ اپوزیشن کی طرف وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی شہباز شریف ہی ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی پارلیمانی پارٹی کے قائد کے طور آصف زرداری نے یہ طے کردیا کہ نئے وزیراعظم کون ہوں گے۔

زرداری بخوبی جانتے تھے کہ جس مہنگائی کو روکنے کیلئے ان کی پارٹی لانگ مارچ کرچکی ہے وہ مسئلہ آگے چل کر مزید بڑھنے والا ہے۔ یہی سوچ کر نہ تو پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کی طرف گئی اور نہ ہی اس نے خزانہ یا منصوبہ بندی کی وزارتیں مانگنے کی حماقت کی۔ پیپلز پارٹی نے تو پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہونے پر وزارتیں لینے کے معاملے میں بھی تردید کیا۔ حتیٰ کہ بلاول کو وزارت خارجہ کا قلمدان لینے کیلئے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا گیا۔

بلاول کو وزیر خارجہ بنا کر ان کی آن جاب ٹریننگ کی گئی۔ بلاول نے بھی اس وزارت میں سرکاری وسائل پر اپنے آپ کو بیرونی دنیا میں خوب ہی متعارف کرایا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بلاول کے پاس اس کی والدہ کا ہی اس قدر مضبوط تعارف ہے جس کی کوئی مثال نہیں لیکن حکومتی تجربہ بہر حال بہت اہم تھا جو اب انہوں نے حاصل کر لیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول کو وزیر خارجہ، جو وزیر اعظم کے بعد کسی بھی حکومت میں سب سے اہم وزارت ہوتی ہے ،بنواکر ان کی اہلیت میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے مقابلے میں نواز لیگ کے پاس آج بھی میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی ٹھوس امیدوار نہیں ہے، لیکن نواز شریف کی اہلیت میں ابھی عشق کے کچھ امتحان مزید ہیں۔ کیا عدالت نئے قوانین کے تحت انہیں اہل قرار دیتی ہے کہ نہیں؟ یہ مرحلہ ابھی باقی ہے۔

بہرحال یہ مراحل طے کرنے کے بعد میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط لیگی امیدوار ہوں گے۔ اس فہرست میں دوسرا نام شہباز شریف کا ہے جن کے بارے میں پارٹی کے اندر اب بھی یہ تاثر ہے کہ وہ بطور وزیر اعلی پنجاب زیادہ بہتر ہیں۔ اس وجہ سے ان کی” سی وی” اپ گریڈ ہوکر بھی سودمند ثابت نہیں ہوئی۔ ساتھ نواز شریف کے سامنے کھڑا نہ ہونے کی جرات نے ان کے نمبر مزید کم کردئے۔ اس دوڑ میں نواز لیگ کے پاس مریم کی صورت میں تیسری امیدوار توہیں جس کے بارے میں نواز شریف یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ان کی زندگی میں وزیراعظم بن جائیں۔

یہ کھینچا تانی پی ڈی ایم میں جلد یا بدیر اس اتحاد کو قصہ پارینہ بنادے گی۔ ویسے بھی اس اتحاد کے استوار ہونے میں عمران خان دشمنی وہ جل تھی جس نے ان سب کو جوڑ رکھا تھا۔ عمران خان کی جماعت خیبر پختونخوا کے باہر لولی لنگڑی ہونے کے بعد اب اس اتحاد کی ترجیح نہیں رہی، اس لئے انتظار کیجئے کہ سانجھے کی یہ ہنڈیا کب پھوٹتی ہے؟

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button