سیاست

پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے پشاور کی واحد غلیل مارکیٹ کو تالے لگ گئے

ہارون الرشید

پاکستان میں آئے روز پرتشددمظاہروں، ہنگامہ آرائی اور جلاؤگھیراؤ کے واقعات نے غلیل کے قدیم اور روایتی کاروبار کوبھی متاثرکر دیا ہے۔ مشتعل مظاہرین کی جانب سے غلیل کے غلط استعمال کے بعد صوبائی دارالحکومت پشاورمیں قائم ملک کی واحد غلیل مارکیٹ کوتالے لگ گئے، پولیس کے سخت پہرے کے باعث دکانداروں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔

غلیل مارکیٹ
پشاورکے علاقے نمک منڈی میں صدیوں پرانے ہتھیار”غلیل“کی پوری مارکیٹ واقع ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر غلیلیں فروخت کی جاتی ہیں۔ اس بازارکے صدر اور غلیل کاروبار سے وابستہ تاجر نعمت اللہ نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نمک منڈی شاہ قبول میں قائم یہ غلیل مارکیٹ تقریباً 70سال پرانی ہے، انہیں یہ ہنر اور کاروبار آباؤاجداد سے ورثے میں ملا ہے اور یہ آج بھی منافع بخش ہے۔ یہ ملک کی واحدمارکیٹ ہے جہاں کئی صدیوں سے غلیل کا ہول سیل کاروبار ہو رہا ہے۔ یہاں پرتقریباً ایک درجن کے قریب دکانیں موجود ہیں جبکہ باقی شہروں میں ایک دو دکانیں ہوتی ہیں یا کسی جنرل سٹور والے کے پاس غلیلیں پڑی ہوتی ہیں۔ انکے مطابق 70 روپے سے لے کر1200 روپے تک فی درجن غلیل کی قیمت ہے اسکی تیاری میں صرف لکڑی کا دستہ، چمڑااور ربڑ لگتا ہے،زیادہ تر غلیلیں خواتین کارکن گھر بیٹھ کر تیار کرتی ہیں، خیبرپختونخواکے علاوہ پنجاب، سندھ،بلوچستان اور افغانستان تک یہاں سے غلیل برآمدہوتی ہے۔

مظاہروں میں غلیل کا استعمال ہوتا ہے؟

لانگ مارچ،احتجاجی مظاہروں،دھرنوں میں آنسو گیس اورلاٹھی چارج کے ردعمل میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے غلیل کا استعمال عام سی بات ہے۔ اس حوالے سے ایک دکاندار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 9 اور 10 مئی کے پرتشدد مظاہروں کے دوران انکی مارکیٹ سے تقریباً پانچ درجن تک غلیلوں کی خریداری ہوئی تھی یہی نہیں ملک کی ایک سیاسی جماعت کی کال پراسلام آبادمیں ہونیوالے 25 مئی کے احتجاجی دھرنے کیلئے بھی پشاور سے ایک مقامی رہنما نے تین بوریاں غلیلیں خریدی تھیں۔ انکے مطابق 9 اور 10 مئی کو پرتشدد ہجوم کی جانب سے غلیل کے استعمال کے بعد پولیس نے انکی مارکیٹ دو دن تک کیلئے بندرکھی تاکہ مزیدغلیل کی خریداری نہ ہوسکے۔ مارکیٹ کی بندش کی وجہ سے نہ صرف انکا کاروبار متاثر ہوا بلکہ انہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ وہ مزیدبتاتے ہیں کہ جان لیوا ہتھیاروں کے مقابلے میں غلیل ایک ایساہتھیار ہے جوبازار سے باآسانی ملتا ہے جس کیلئے باقاعدہ کوئی قانونی دستاویز بنوانی نہیں پڑتی کچھ لوگ غلیل میں بلوریاں (کنچے) تو کوئی پتھرکا استعمال کرتے ہیں۔

کیا دکانداروں کوبری الزمہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

غلیلوں کے کاروبار کرنے والے ایک اور دکاندارسعیدخان کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار صرف سال کے ابتدائی پانچ ماہ چلتاہے کیونکہ ان مہینوں میں گندم کی فصل تیارہوتی ہے پرندے فصلوں کونقصان نہ پہنچائے اس لئے کسان غلیل سے چڑیوں کاشکارکرتے ہیں جبکہ بچے غلیل کو کھلونے کے طور پرنشانہ بازی کیلئے بھی خریدتے ہیں انکے مطابق ان کا ذریعہ معاش یہی غلیل کا کاروبار ہے اگر انکا کاروبار بلاوجہ بندہوگا تو انکے گھرکے چولہے ٹھنڈے پرجائینگے۔ انہوں نے واضح کیاکہ ان کے پاس مارکیٹ میں گاہک کی شکل میں سب لوگ غلیل خریدنے کیلئے آتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی گاہک کو غلیل کے غلط استعمال کی ترغیب نہیں دی غلیل سے کسی کی جان نہیں جاتی تاہم مظاہروں میں اسکا استعمال ہرلحاظ سے قابل مذمت ہے اگرکوئی اسکا غلط استعمال کرتاہے تو اس میں دکاندارکی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔

غلیل کی قدیم روایت
غلیل کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے بہت سے ممالک میں رائج رہا ہے  تاہم تاریخی اعتبار سے یہ استعمال بھارت اور پاکستان میں زیادہ رہا ہے۔ غلیل کی صنعت کا باقاعدہ آغاز 1847ء میں ہوا۔ Charles good year نے 1839ء میں اسے Patent کیا۔ 1860ء تک یہ بچوں کی شرارت کے لئے مشہور ہتھیار بن چکا تھا۔ 1918ء سے تجارتی بنیادوں پر اس کی تیاری کا آغاز ہوا۔ Whom o Company نے 1948ء میں Wham o sling shot پیش کیا۔ اس دوران کیلی فورنیا کے سان مارینو میں نیشنل سلنگ شاٹ ایسوسی ایشن بھی قائم ہوچکی تھی۔ کئی کلبس قائم ہوئے اور باقاعدہ غلیل نشانہ بازی کے مقابلوں کا آغاز ہوا۔ غلیل کے مختلف ممالک میں مختلف نام ہیں۔ ویکی پیڈیا کے مطابق برطانیہ میں اسے Catapult، امریکہ میں Peashooter، جنوبی افریقہ میں Kettie، کہا جاتا ہے۔ ویسے اس کے 75سے زائد علیحدہ علیحدہ نام ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button