سیاستعوام کی آواز

متحدہ عرب امارات کی جیلوں سے 325 پاکستانی قیدی رہا، ہمارے ابو کب واپس آئیں گے؟

رفاقت اللہ رزڑوال

"میرے 5 چھوٹے بچے شام ڈھلتے ہی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ابو کب واپس آئیں گے، دیکھو نا سب کے باپ عید منانے گھر آگئے۔ میرے پاس بچوں کو جواب دینے کے لئے الفاظ نہیں ہوتے کیونکہ میں انہیں نہیں بتا سکتی کہ آپ کے والد گزشتہ 5 سالوں سے عمان کی جیل میں قید ہے۔”

چارسدہ کی رہائشی 42 سالہ منہا بی بی کے 46 سالہ شوہر باچا زرین گزشتہ 8 سالوں سے خلیجی ملک عمان میں محنت مزدوری کرتے تھے جبکہ اہل خانہ کے مطابق باچا زرین کو بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے ‘جھوٹے الزام’ کے تحت عمان کی حکومت نے 25 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے منہا بی بی نے بتایا شوہر کو قید ہوئے 5 سال ہوگئے جبکہ بچے ہر روز مجھ سے والد کے بارے میں پوچھتے ہیں لیکن میں انہیں یہ تسلی دیکر چپ کر دیتی ہوں کہ وہ آجائے گئے لیکن کب آئیں گے یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔

انہوں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور عمان کے حکام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ امداد کرنے کی بجائے میرے شوہر کو رہا کر دیا جائے تاکہ میرا او بچوں کا انتظار ختم ہوجائے۔

یہ کہانی صرف منہا بی بی کی نہیں بلکہ پاکستان کے ایسے ہزاروں گھرانوں کی ہے جن کے پیارے خلیجی اور دیگر ممالک میں قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سال 2020 میں دفتر خارجہ کی رپورٹ کے مطابق بیرون ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 9991 ظاہر کی گئی ہے۔
جن میں سعودی میں 2555، متحدہ عرب امارات میں 1998، ہندوستان میں 345، یونان میں 884، انڈونیشیا میں 8، آئرلینڈ میں 2، ایران میں 100، عراق میں 109، اٹلی میں 291 اور چاپان میں 9 قیدی ہیں۔

اسی طرح وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق کویت میں 65، کینیا میں 6، ملائیشیا میں 242، لیبیا میں 30، اسپین میں 163 اور ترکی میں 263 پاکستانی قیدی موجود ہیں۔

خلیجی ممالک میں قید پاکستانیوں کے لئے مقدمات لڑنے والے پاکستانی وکیل نور عالم خان ایڈووکیٹ کے مطابق خلیجی ممالک میں اکثر وہ پاکستانی جیلوں میں ہوتے ہیں جن کو اُن ممالک کے زبان، قانون اور روایات کا علم نہ ہو۔

ٹی این این سے گفتگو میں نور عالم نے بتایا کہ ہم جب مختلف جیلوں کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں قید پاکستانیوں سے ان کے جرم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر قیدیوں کا کہنا ہوتا ہے کہ کفیل سے محنت مزدوری کی بقایا رقم مانگنے پر ہمیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ یا عربی زبان بولتے وقت ناسمجھی میں وہ ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جس سے جرم سرزد ہوجاتا ہے یا وہ مقامی جرائم پیشہ افراد کی ہتھے چڑھ جاتے ہیں جس کے باعث وہ سالوں تک جیل میں قید ہوجاتے ہیں۔

نور عالم کے بقول رمضان میں ان قیدیوں کو ریلیف دیا جاتا ہے جس کے تحت ان کی سزاؤں میں کمی یا رہائی ممکن ہوجاتی ہے اور انہیں عید سے پہلے گھر بھیج دیئے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں 14 اپریل کو متحدہ عرب امارات کے سفیر فیصل نیازی نے کہا تھا کہ پاکستان کی درخواست پر متحدہ عرب امارات کی مختلف جیلوں سے 325 افراد کو رہا کر دیا گیا۔

متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ رہا کیے گئے پاکستانی قیدی چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث تھے اور پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے ان کی رہائی کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے جیلوں میں قید پاکستانیوں کو قانونی خدمات فراہم کرنے کی کوششیں کیں۔

کیا دیگر خلیجی ممالک میں قید پاکستانیوں کی رہائی بھی رمضان پیکیج کے تحت ہوسکتی ہے، کے جواب میں نورعالم خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ قیدیوں کے تبادلے کے لئے پاکستان کا چائنہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت وہ اپنی قیدیوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں باقی جتنے بھی خلیجی ممالک ہے وہ دفتر خارجہ کی درخواست پر اپنی قیدیوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق اب عمان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا ہمارا کوئی معاہدہ نہیں مگر قیدیوں کے تبادلے کے لئے پہلے ان تمام افراد کی لسٹ سفارتخانے کے توسط سے حکومت پاکستان کو بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے پاکستانی ہونے کا تصدیق کرے پھر بعد میں حکومتیں سے ان قیدیوں کی رہائی کے لئے درخواست کی جاتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ان کا کیس انڈر ٹرائیل نہ ہو۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ میں جب بھی حکومت کی اجازت سے ان ممالک کے جیلوں کا وزٹ کرتا ہوں تو اکثر پاکستانی قیدی یہی شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستانی حکام ان کا حال نہیں پوچھتے اور وہ بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ باقاعدہ طور پر ایمبیسی کی تھرو پاکستانیوں کے ساتھ رابطے میں رہیں۔

خلیجی ممالک میں قید پاکستانیوں کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جاتا ہے؟

خلیجی ممالک میں قید گزارنے والے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہاں کے جیلوں میں مقامی افراد یا عربوں کے لئے سہولیات موجود ہوتے ہیں مگر دیگر ممالک کے قیدیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں پر ان کے رشتہ بھی پوچھ نہیں سکتے ہیں اور نہ حکومت کی طرف سے تعاؤن کی جاتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے جیل میں دو ماہ قید کاٹنے والے ضلع چارسدہ کے رہائشی ارشاد حسین کا کہنا ہے کہ وہ عمان میں اپنی محنت مزدوری کرتے تھے مگر ان کو کفیل نے کام کے آخر میں اپنا معاوضہ نہیں دیا جس سے رقم کی عدم ادائیگی کی ان کا ویزہ خراب ہو کر عمانی حکومت نے پاسپورٹ ضبط کرلی۔

ان کے بقول سرحد پر سکیورٹی اہلکاروں نے پکڑ کر ہم سے پاکستان کے تمام کاغذات اور موبائل فونز قبضے میں لے کر ہمیں جیل میں ڈال دیا ، وہاں میں ایک چھوٹے سے بیرک میں قید رہا، نہ نہانے کی اجازت ہوتی اور نہ بال کٹوانے کی، انتہائی مشکل زندگی تھی۔ انہوں بتایا خلیجی ممالک میں ایمبیسی کی تھرو آپ کی رہائی تب ممکن ہوتی ہے جب آپ کو اپنی شناختی کارڈ کا نمبر یاد ہو، میرے پاس تو کارڈ نہیں تھا لیکن مجھے اس کا نمبر یاد تھا تو اس وجہ سے میری رہائی ممکن ہوئی۔

ارشاد کا مزید کہنا ہے کہ چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کی رہائی جلد ممکن ہوتی ہے تاہم جب کوئی غیرمعمولی جرم میں ملوث ہو یا کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو اس صورت میں ملزم یا اس کا جرم ادا کریگا یا قید کاٹے گا بصورت دیگر ان کی رہائی ممکن نہیں ہوتی۔

قیدیوں کی رہائی میں تنظیموں کا کردار 

خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی کچھ ایسی تنظیمیں بھی وجود رکھتی ہیں جو اپنے ہم وطنوں کے حقوق اور مسائل کے حل کے لئے کام کرتے ہیں۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے صدر امیر محمد اتمانخیل نے ٹی این این کو بتایا کہ جب ہمارے کمیونٹی کے کسی فرد سے کوئی بڑا جرم ہوجائے تو اس کے لئے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جس میں کمیونٹی مشترکہ طور اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

ان کے بقول یہاں قتل سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے جس کا جرمانہ 3 لاکھ 20 ریال ہوتا ہے لیکن اکثر پاکستانیوں کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں ہوتی اس لئے وہ جیلوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاہم ان کی تنظیم اپنے طور پر چندہ کرکے ان افراد کی مدد کرتے ہیں جن کو کسی بھی مسئلے کا سامنا ہو۔

انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے دوران جب لاشیں مردہ خانوں میں پڑی تھیں تو ہم نے چندہ کرکے انہیں پاکستان بھیجتے تھے حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی جبکہ اس طرح ان قیدیوں کی رہائی کے لئے بھی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں وزارت خارجہ نے بیرون ممالک میں قید پاکستانیوں کی تعداد کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ ان کے پاس غیر قانونی طور پر قید پاکستانیوں کی صحیح تعداد نہیں ہے۔

اکتوبر 2019 میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے انکشاف کیا تھا کہ ملک سے باہر 88 لاکھ پاکستانیوں میں سے 11,803 افراد دنیا کے مختلف ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ اس وقت وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ 2937 پاکستانی، 1842 پاکستانی، 582 ہندوستانی، 177 افغان، 242 چینی، 188 ایرانی اور 226 ملائیشین جیلوں میں قید ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button