خاتون جج مسرت ہلالی پشاور ہائی کورٹ کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس مقرر
عثمان دانش
پشاور ہائیکورٹ کی خاتون جج مسرت ہلالی یکم اپریل سے خیبر پختونخوا کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گی۔
اس سلسلے میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 29 مارچ کو مسرت ہلالی کی تعنیاتی کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔
30 مارچ کو چیف جسٹس قیصر رشید خان اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے جس کے بعد سینئر جج کے لسٹ میں جسٹس روح الامین 31 کو مارچ کو صرف ایک دن کے لئے قائم مقام جسٹس بنیں گے جبکہ اگلے روز یکم اپریل کو مسرت ہلالی حلف اٹھائیں گی۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق جب تک جوڈیشل کمیشن مستقل طور پر چیف جسٹس کی تقرری نہیں کرتا اس وقت تک جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض سر انجام دیں گی۔
جسٹس مسرت ہلالی کون ہے؟
8 اگست 1961 کو ملاکنڈ دویژن کے گاوں تھانہ میں پیدا ہونے والی جسٹس مسرت ہلالی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی اور پھر اعلی تعلیم کے لئے پشاور منتقل ہوئی جہاں انہوں نے پشاور یونیورسٹی خیبر لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کیا، 1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی مختلف عہدوں پر تعینات رہی
جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختونخوا کی پہلی وکیل تھی جو 2001 سے 2004 تک ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات رہی، انوائرمیٹنل پروٹیکشن ٹرائبیونل کی پہلی خاتون چیئر پرسن اور پہلی صوبائی محتسب کا اعزاز بھی جسٹس مسرت ہلالی کو حاصل ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی سرگرم رہی اور 1992 سے 1994 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر کے عہدے پر تعینات رہی جبکہ 1997 سے 1998 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون جنرل سیکرٹری بھی رہی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی 2007 سے 2009 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ایگزیکٹیو ممبر بھی رہی ہیں۔
وکلاء تحریک کی سرگرم رکن
2007 میں سابق صدر پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کرکے آئین کو معطل کیا تو وکلاء نے اس کے خلاف جو تحریک شروع کی اس کا آغاز پشاور سے ہوا تھا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (مرحوم) عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ اس تحریک کو پشاور سے لیڈ کر رہے تھے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی بھی اس تحریک میں دیگر وکلاء کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھی۔
وکلاء کیا کہتے ہیں؟
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کی وکیل ندا خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ مسرت ہلالی کا چیف جسٹس تعینات ہونا ہم سب کے لئے باعث فخر ہے کیونکہ جسٹس مسرت ہلالی ایک جدوجہد کا نام ہے اس لئے وہ آج اس منصب پر فائز ہونے جا رہی ہے جو مقام انہیں اپنی کوششوں کی وجہ سے ملا ہے۔
دوسری جانب نازش مظفر ایڈووکیٹ کے بقول جسٹس مسرت ہلالی کی تعیناتی سے یہ تاثر بھی ختم ہوگیا ہے کہ خواتین کو مواقع نہیں ملتے، ایسا نہیں ہے اگر خواتین خود آگے آنا چاہتی ہے تو اس لئے انہیں خود محنت کرنا پڑے گا اور جب کوئی شخص یا خاتون محنت کرتی ہے تو انہیں بھی بہتر مواقع ملتے ہیں جس کی مثال جسٹس مسرت ہلالی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔