جماعت اسلامی کی کارکردگی اوجھل، وجوہات کیا ہیں؟
محمد فہیم
ملک بھر کے ضمنی انتخاب کی جیت اور ہار میں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی بحث میں ایک اہم اور تاریخی جماعت کی کارکردگی اوجھل ہو گئی۔ جماعت اسلامی کی تاریخ انتہائی موثر اور اس کی ملک بھر میں سیاست کلیدی رہی ہے تاہم 2008 کے عام انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد جماعت اسلامی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جماعت اسلامی 2013 سے لے کر 2018 تک تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کا حصہ رہی ہے لیکن وہ بھی جماعت اسلامی کی بہترین کارکردگی نہیں بلکہ ایوان میں نمبر گیمز کی بنیاد پر اس کی اہمیت کے باعث تھی۔
16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی نے پشاور، مردان اور چارسدہ میں اپنے امیدوار کھڑے کئے تاہم ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ضمنی انتخابات میں اپنا امیدوار تو کھڑا کر دیا تاہم مجموعی طور پر خیبر پختونخوا کے کسی بھی حلقہ میں مقابلہ نہ کر سکی اور تینوں حلقوں میں صرف اپنی موجودگی ظاہر کرنے تک محدود رہی۔
این اے 22 مردان میں جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور امیدوار عبدالواسع نے 8 ہزار 239 ووٹ حاصل کئے، اسی طرح این اے 24 چارسدہ سے جماعت اسلامی کے امیدوار مجیب الرحمن نے 7 ہزار 883 ووٹ حاصل کئے جبکہ این اے 31 پشاور میں جماعت اسلامی کے امیدوار محمد اسلم نے 3 ہزار 816 ووٹ حاصل کئے۔
جماعت اسلامی نے تینوں حلقوں پر مجموعی طور پر 19 ہزار 938 ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ تینوں حلقوں پر دوسرے نمبر پر سب سے کم ووٹ لینے غلام احمد بلور نے بھی جماعت اسلامی کے تینوں حلقوں سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔ غلام احمد بلور نے 32 ہزار 253 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے تینوں امیدواروں سے ان کے 12 ہزار 315 ووٹ زیادہ ہیں۔
حمایت سے جیت تک کا سفر طویل
جماعت اسلامی ملک کے کسی بھی شہر اور ضلع میں ایک بڑا جلسہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بھی اس بات پر آمادہ ہیں کہ جماعت اسلامی ایک صاف اور شفاف جماعت ہے تاہم ان کی یہ حمایت آج تک ووٹ میں تبدیل نہیں کی جا سکی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عبداللہ جان کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں تاریخی اعتبار سے جماعت اسلامی کے مختلف علاقے تھے جہاں سے وہ منتخب ہوتے تھے جن میں دیر، بونیر، چترال اور جنوبی اضلاع میں چند علاقے شامل ہیں تاہم اب وہاں جو جماعت اسلامی کی طاقت ہے وہ ووٹ کی صورت میں کم ہو رہی ہے جبکہ وہاں ایسا ووٹ بھی انتہائی کم ہے جو انہیں جیت دلوا سکے، سپورٹ اس جماعت کی موجود ہے؛ وہ جلسہ جلوس بھی کر سکتے ہیں، عوامی فلاح کے کام میں الخدمت سب سے زیادہ کام کرتی ہے، کراچی میں آج بھی لوگ نعمت اللہ خان کو یاد رکھتے ہیں تاہم اس حوالے سے جماعت کو خود دیکھنا پڑے گا کہ وہ اپنی سپورٹ کو جیت کی صورت میں منتقل کر سکے۔
پی ٹی آئی کو شوکت خانم پر ووٹ، جماعت اسلامی کی الخدمت کیوں نظرانداز؟
پشاور کی شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زرمینہ بلوچ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ عمران خان کو ایک فلاحی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے، بطور کرکٹر ان کی بلاشبہ ایک مضبوط شخصیت ہے تاہم شوکت خانم اور یونیورسٹی کی تعمیر ان کی شخصیت کو ایک فلاحی شخصیت کے طور پر سامنے لائی ہے، جماعت اسلامی کے پاس الخدمت فاﺅنڈیشن ہے جسے دنیا مانتی ہے، پوری دنیا میں لوگ صرف اسی تنظیم کو اپنے عطیات دیتے ہیں لیکن ووٹ جماعت اسلامی کو نہیں ملتا جو جماعت اسلامی کیلئے تشویش کا باعث ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کو جدت کی ضرورت ہے؛ جو کام الخدمت کرتی ہے اس کا پرچار اس طرح نہیں کیا جاتا جس طرح پی ٹی آئی کرتی ہے، اسی طرح جماعت اسلامی کو اپنے تنظیمی ڈھانچے پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا عمران خان کا ووٹ سماجی خدمات پر ہے؟
الخدمت خیبر پختونخوا کے صدر خالد وقاص چمکنی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ الخدمت کا کام سیاست نہیں ہے، الخدمت صرف اور صرف عوامی فلاح پر یقین رکھتی ہے؛ کبھی کسی کی مدد اس بنیاد پر نہیں کی کہ وہ جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دے گا، یہ تنظیم علیحدہ تنظیم ہے، نظریاتی بنیاد پر جماعت کا اثر ہے تاہم یہ پلیٹ فارم سیاست کیلئے نہیں ہے۔
خالد وقاص کہتے ہیں کہ عمران خان کو اس کی سماجی خدمات پر ووٹ ملنے کا دعویٰ کرنا درست نہیں ہے، شوکت خانم اور یونیورسٹی پہلے بھی تھی لیکن عمران خان اسمبلی میں اکیلے تھے، جس طرح انہیں میڈیا میں جگہ ملتی ہے اور وہ جس طرز کی سیاست کرتے ہیں وہ بھی ان کا ووٹ بینک بنانے اور انہیں جتوانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔