”سلیکشن نہیں الیکشن کے ذریعے ہمارے نمائندوں کا انتخاب کیا جائے”
سلیکشن: ''ہمارے بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے''
زاہد جان
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے جمیل بسمل گزشتہ 12 سالوں سے باجوڑ میں مقیم اور باجوڑ میں مینارٹی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ اقلیتوں کے مسائل کے حل کیلئے سرکاری محکموں اور صوبائی وزراء کے دفتروں کے چکر کاٹتے ہیں۔ جمیل بسمل کہتے ہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری مخصوص سیٹوں پر نمائندے ووٹ کے ذریعے نہیں آتے بلکہ سیاسی قیادت کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سلیکٹ ہوتے ہیں۔
اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر سلیکشن کے بارے میں جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ سلیکشن ہمیں مہنگی پڑ رہی ہے وہ اس لئے کہ ہمیں اپنے حقوق نہیں مل رہے۔ اس کے علاوہ سلیکٹ ہونے والے ممبران کی صرف اپنے مخصوص علاقوں پر نظر ہوتی ہے، سلیکشن سے جو بندہ آتا ہے اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے؛ نہ اس پر ووٹر کا زور ہوتا ہے اور نہ اسے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ مجھے اگلے الیکشن میں کوئی ووٹ نہیں دے گا، اگر اقلیتی نمائندگان کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے تو پھر اُس کے ساتھ ضرور یہ احساس ہو گا کہ اگلے الیکشن میں ہمیں پھر ووٹرز کے پاس جانا ہے، ہمیں سلیکشن اس لیے مہنگی پڑی ہے کہ ہمارے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔
جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اقلیت کیلئے صوبائی حکومت سے 2021 میں فلیٹس کیلئے تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ فنڈز منظور ہوا تھا جس کیلئے ہم نے بہت کوشش کی لیکن وہ فنڈز واپس سرکاری خزانے میں چلا گیا۔ ہم کئی بار صوبائی وزیر اقلیتی امور کے پاس بھی گئے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہم اس لئے ووٹنگ چاہتے ہیں کہ اگر ووٹ کے ذریعے اقلیتی نمائندے منتخب ہوں گے تو اقلیتی ووٹرز کی قدر ہو گی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے دس نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ آئین کے مطابق پورا ملک ان مخصوص نشستوں کا حلقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی جغرافیائی علاقے یا وفاقی یونٹ کے لیے کوئی مخصوص کوٹہ مقرر نہیں کیا گیا ہے اور سیاسی جماعتیں کسی بھی علاقے سے اپنے امیدواروں کو نامزد کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ نشستیں متناسب نمائندگی کے طریقہ کار سے پُر کی جاتی ہیں۔ اقلیتی نشستیں پارٹیوں کو انتخابات میں حاصل کی گئیں جنرل نشستوں کے تناسب سے دی جاتی ہیں۔ پانچ فیصد سے کم جنرل نشستیں جیتنے والی پارٹی کو مخصوص نشستوں کا کوئی کوٹہ نہیں ملتا۔
اسی طرح تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں ہیں۔ اس وقت 2018 کے عام انتخابات کے بعد جن مخصوص نشستوں پر اراکین صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان کی کل تعداد 23 ہے۔
انتخابات: تاریخ پر اک نظر
ماضی میں اقلیتی نمائندوں کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہوتا تھا لیکن 2002 کے بعد یہ صورتحال بدل گئی اور آئینی ترمیم کے ذریعے موجودہ طریقہ کار وضع کیا گیا۔ قبل ازیں 1985 میں نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ہندو کمیونٹی کے جی آر گیل منتخب ہوئے۔ اس کے بعد کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے کرسچن کمیونٹی سے فقیروں دینا منتخب ہوئے جبکہ 1991 میں پرویز منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم جونیجو کے دور میں بہاری لعل، جو کہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے، اقلیتی امور کے منسٹر مقرر ہوئے۔
ضم شدہ اضلاع کے واحد ایم پی اے سے اقلیتی برادری ناراض
ضم اضلاع میں مقیم اقلیتی برادری کو پہلی بار صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی گئی۔ سال 2019 میں ضم شدہ اضلاع میں خیبر پختونخوا اسمبلی کیلئے پہلی بار انتخابات ہوئے اور پہلی بار اقلیتی برادری کیلئے ایک نشست مختص کی گئی جس پر لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ولسن وزیر ایم پی اے منتخب ہوئے لیکن چار سال گزرنے کے باوجود بھی وہ اقلیتی برادری کیلئے خاطر خواہ کام نہ کر سکے۔
باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ ہم 75 سالوں سے اپنے حقوق سے محروم ہیں جس میں بنیادی کردار ہمارے ہی نمائندوں کا ہوتا ہے جو کہ سیاسی قیادت کی مرضی سے آتے ہیں، ”اب ہمارا ایم پی اے ولسن وزیر ہے جس نے آج تک ہمارے لیے ایک بھی کام نہیں کیا ہے، باجوڑ سمیت کرم، میران شاہ، کوہاٹ وغیرہ علاقوں میں نہ تو شمشان گھاٹ ہے اور نہ ہماری عبادت کیلئے مندر۔”
باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن کے صدر پرویز مسیح 1980 سے باجوڑ میں رہائش پذیر ہیں اور وہ اقلیتی برادری کے مسائل کو مختلف فورمز پر اجاگر کرتے ہیں۔ پرویز مسیح کہتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل ہیں جس کو کسی نے بھی حل نہیں کیا اور یہ کافی عرصے سے چلے آ رہے ہیں لیکن ان کے حل کیلئے موثر آواز ضروری ہے، اقلیتی برادری کے پانچ فیصد کوٹے پر عملدرآمد نہیں کروایا گیا جو کہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ اقلیتی نمائندوں کا انتخات ووٹ کے ذریعے کیا جائے، حال ہی میں میری بیٹی ثناء پرویز اقلیتی سیٹ پر بلامقابلہ اقلیتی کونسلر منتخب ہوئی تھی جو کہ اب اقلیتوں کی خدمت میں مصروف ہے، الیکشن سے یہ فائدہ ہو گا کہ سب کو سیاست میں حصہ لینے کا موقع ملے گا، ہمارے لوگ صرف صفائی تک محدود نہیں ہو سکتے بلکہ ہر فورم پر خدمت کر سکتے ہیں اور سیاست بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں غیرمسلموں کی آبادی
سال 2017 کے مردم شماری کے مطابق پاکستان میں غیرمسلموں کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے جس میں ہندو کمیونٹی کی تعداد سب سے زیادہ، 30 لاکھ سے زائد ہے، دوسرے نمبر پر کرسیچئن کمیونٹی ہے جس کی آبادی 26 لاکھ سے زائد ہے، تیسرے نمبر پر سکھ کمیونٹی ہے، سکھ کمیونٹی کی آبادی ایک لاکھ اسی ہزار ہے، چوتھے نمبر پر چترال میں مقیم کیلاشی قبیلہ ہے جس کی آبادی چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
ضم شدہ اضلاع سے مخصوص سیٹ پر ایم پی اے بننے والے تحریک انصاف ولسن وزیر نے اقلیتوں کی جانب سے عائد کردہ ان الزامات کہ انہوں نے اقلیتوں کے لئے کچھ نہیں کیا، ان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں ایم پی اے بننے کے بعد کافی سکیمیں کروائیں، ضلع باجوڑ میں چرچ بنایا گیا جس پر ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے، اس کے علاوہ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کی لاگت سے لنڈی کوتل کینٹ میں چرچ مکمل ہونے والا ہے، جمرود میں چرچ کو بڑا کرنے کیلئے 60 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔
ولسن کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع کی مینارٹی کیلئے سالانہ ترقیاتی سکیم کے تحت 500 ملین (50 کروڑ روپے) منظور کروائے گئے جس میں لنڈی کوتل کالونی میں رہائشی فلیٹس بنائے جائیں گے، جمروڈ میں 20 فلیٹس بنائے اور ایک کمیونٹی ہال بنایا جائے گا، جبکہ باجوڑ میں 10 سے 15 رہائشی کواٹرز بنانے کی تجویز دی گئی ہے، اس کے علاوہ پاراچنار میں ایک چرچ اور 25 گھروں کی بحالی بھی اس منصوبے کا حصہ ہے، علاوہ ازیں شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میران شاہ میں چرچ، قبرستان اور کمیونٹی ہال، مہمند کے ہیڈکوارٹر غلنئی میں ایک کمیونٹی ہال اور 10 رہائشی کوارٹرز، اور جنوبی وزیرستان کی اقلیت کیلئے بھی منصوبے شامل ہیں۔
ولسن وزیر نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے یتیم بچوں کو پہلی بار 10، 10 ہزار روپے دیئے گئے، مذہبی پیشواؤں کو 50، 50 ہزار روپے دیئے گئے، یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء کو سکالرشپ دی گئیں، 100 بیماروں کو پہلی بار 50، 50 ہزار روپے دیئے گئے، 1800 اقلیتی نوجوانوں کے لئے فنی تربیت کا منصوبہ شروع کیا گیا جس میں دو فیزوں میں 900 نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھائے گئے جبکہ 900 مزید افراد کو ہنر سکھائیں گے، اسی منصوبے کیلئے 27 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اور ان کو سالانہ 10، 10 ہزار روپے بھی دیئے گئے۔
اقلیت سیٹوں پر الیکشن کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے ولسن وزیر نے بتایا کہ اس کیلئے آئین میں ترمیم ضروری ہے اور مسئلہ وفاق کا ہے صوبوں کا نہیں ہے، جب وفاق آئینی ترمیم کرے گا تو الیکشن کے ذریعے نمائندوں کا انتخاب ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ میں اقلیت کی خصوصی سیٹوں پر الیکشن کے حق میں ہوں کیونکہ جب نمائندہ الیکشن کے ذریعے آئے گا تو اس کے پاس یہ اختیار بھی ہو گا کہ اسے حکومت میں جانا ہے یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہے، اقلیتی برادری اگر ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرے تو یہ اچھا ہو گا، ووٹ کے ذریعے آنے والا نمائندہ طاقتور ہو گا اور وہ اگلے الیکشن میں عوام کے پاس جائے گا۔ اور الیکشن کی صورت میں عوام کے زیادہ تابعدار ہوں گے، سلیکشن کی صورت میں اقلیتی ممبر صرف پارٹی کو Bound ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پارٹی فیصلوں سے انخراف کرتا ہے یا ان کی مرضی کےخلاف چلتا ہے تو پھر پارٹی اگلے الیکشن میں ٹکٹ نہیں دے گی۔
ولسن وزیر نے کہا کہ ہمارے دو مطالبات ہیں؛ ایک جنرل الیکشن کی طرح اقلیتی سیٹوں پر الیکشن کرایا جائے اور ساتھ ساتھ اقلیت کے لئے مختص خصوصی نشستوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ 1985 سے لے کر اب تک اقلیتی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
سال 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی 7.32 ملین ہے جس میں ہندو 3.6 ملین، مسیحی 2.64 ملین جبکہ احمدی 0.19 اور دیگر اقلیتیں 0.04 ملین ہیں۔
الیکشن امور پر مہارت رکھنے والے پتن نامی ادارے کے نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری نے بتایا کہ ایک تو اقلیت کی نشستیں بہت کم ہیں، قومی اسمبلی میں 10 نشستیں ہیں، 1970 کے بعد قومی اسمبلی کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا لیکن اقلیت کی سیٹوں میں اضافہ نہیں ہوا لہذا اس میں اضافہ کرنا چاہئے، اس کے علاوہ جن علاقوں میں اقلیتوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں پر سیاسی جماعتیں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دیں، سندھ کے علاقوں عمر کوٹ، تھرپارکر، میرپور خاص میں ہندو کمیونٹی زیادہ ہے اور ان علاقوں میں ہندو آبادی 40 فیصد سے زائد ہے، اس طرح فیصل آباد کے ایک حلقے میں کرسچین کمیونٹی کے ووٹرز 30 ہزار ہیں جہاں پر آبادی زیادہ ہے، وہاں پر قومی اسمبلی کی جنرل نشست کے ساتھ ساتھ ایک نشست اقلیت کیلئے ہونی چاہیے جس میں مسلمان بھی اقلیت کو ووٹ ڈال سکیں جس طرح بلدیاتی انتخابات میں اقلیتی کونسلر کی سیٹ دی گئی ہے اسی طرح ایک سیٹ دینی چاہیے جہاں پر آبادی زیادہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ یورپی ممالک میں سیاسی جماعتیں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں جس طرح انگلینڈ کی لیبر پارٹی نے پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور کو دیا تھا اور ان کا بیٹا گلاسکو کی نمائندگی کر رہا ہے، ”اسی طرح کا سسٹم پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔”