سلمیٰ جہانگیر
9 اپریل کو حکومت تبدیل ہونے کے بعد ملک میں معاشی لحاظ سے کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں سب سے بڑی تبدیلی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اچانک آسمان تک پہنچنا تھا۔ اس اضافے سے روزمرہ زندگی سے جڑی ہوئی ہر شے کی قیمت عام عوام کی دسترس سے باہر کیا بہت دور ہونے لگی۔ ملک میں تبدیلی ضرور آئی لیکن اسکا منفی اثر معاشرے کے ہر طبقے پر پڑا بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس تبدیلی سے ایک سرمایہ دار سے لیکر غریب آدمی تک سب بری طرح متاثر ہوئے۔
حکومت کے علاوہ رہی سہی کسر پیٹرول پمپ مالکان نے پوری کردی۔ پشاور کے کچھ پیٹرول پمپس پر 1000 ml پیٹرول کی بجائے 450ml پیٹرول ڈالا جاتا یعنی عوام کا چمڑا ہر طرف سے خوب ادھیڑا گیا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کے بعد دو دن پہلے یہ خبر آئی کہ چونکہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو پاکستان میں بھی ہونگی تو ہم جیسے خوش فہمی میں مبتلا لوگ یہ سوچنے لگے کہ کم از کم حکومت 60٫70 روپے فی لیٹر کے حساب سے قیمتیں کم کر دینگی ْلیکن حکومت کی طرف سے پیٹرول کی قیمت میں ساڑھے آٹھارہ روپے کمی کے اعلان نے ہماری سوچوں پر پانی پھیر دیا سرکار کی طرف سے نئی قیمتوں کے تعین کے بعد پیٹرول کی قیمت تقریباً 230 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
مہنگائی میں اضافے کا سبب بننے والی پیٹرولیم کی قیمتیں کم ہونے کے ساتھ اب اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہئے لیکن مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب طبقے کو پٹرول کی قیمتیں کم ہونے سے کوئی فایدہ نہیں کیونکہ انکے پاس نا تو بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور نا ہی انکے ذاتی پیٹرول پمپس ہیں جن سے انکو فائدہ ہوگا۔
ان غریب عوام کے لیے دال آٹا اور گھی کی قیمتوں میں کمی ہی انکے لئے باعث خوشی اور زندگی جینے کی نوید ہے۔
پاکستان میں سول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ سرکاری نرخنامے جاری کریں تاکہ غریب عوام کا استحصال نا ہو۔
اسکے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کرایوں میں بھی کمی کا اعلان کریں اور کرایوں کا بھی نئے سرے سے تعین ہونا چاہیے۔