خیبر پختونخوا: ہاتھیوں کی لڑائی اور بے چارے عوام
محمد فہیم
گزشتہ جمعرات کی شام وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے رات 10 بجے کے قریب اچانک سے پیٹرول کی قیمت میں 30 روپے اضافہ کر دیا۔ یہ اضافہ ایک ہفتے کے دوران دوسری مرتبہ کیا گیا۔ پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، ہر شہری پیٹرول پمپ کی جانب لپکا اور 12 بجنے سے قبل گاڑی کی ٹینکی فل کروانے کی کوشش کرتا رہا۔ انہی میں ایک سپریم کورٹ کے وکیل سید غفران بھی تھے جو چمکنی میں ایک پیٹرول پمپ پر موجود تھے جب وہاں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر پشاور کینٹ آفتاب احمد کا سکواڈ کے ہمراہ آنا ہوا۔
اب تک معاملات واضح نہیں ہیں کہ آخر وجہ کیا بنی تاہم ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کے سکواڈ نے سید غفران پر تشدد کرتے ہوئے انہیں گاڑی میں ڈال کر گرفتار کر لیا اور اس تمام معاملہ کی ویڈیو ایک شہری نے بنا ڈالی۔ ضلعی انتظامیہ نے سید غفران پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ بھی درج کرا دیا لیکن ویڈیو سامنے آتے ہی معاملات بگڑ گئے اور پشاور بار نے ہفتہ کے روز احتجاج اور ہڑتال کی کال دے دی۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ اس معاملہ پر خاموش رہی اور جب ہفتہ کے روز وکلاء نے احتجاج کیا اور قریب ہی واقعہ ڈپٹی ۔کمشنر آفس پر بھی ہلہ بول دیا گیا جس سے دفتر میں ایک دروازہ ٹوٹ گیا جبکہ دفتر کے بورڈ کو بھی نقصان پہنچایا گیا تاہم وہاں کئی وکلاءنے طیش میں آنے والے وکلا ءکو روکا اور انہیں واپس لے گئے۔
اس احتجاج کے بعد ہفتہ کے روز ہی بیوروکریسی اکٹھی ہو گئی، صوبائی سروسز اور وفاقی سروسز کے افسران نے ایک ساتھ پیر کے روز ہڑتال کی کال دے دی اور کہا کہ حکومت انہیں جسمانی اور قانونی تحفظ فراہم کرے تبھی ہم کام کریں گے بیوروکریسی کے ساتھ ماتحت عملہ بھی اکٹھا ہو گیا اور ڈائریکٹوریٹس ملازمین بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے۔
وکلاء نے بھی ہڑتال اور احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا اور خیبر پختونخوا بار اور پشاور ہائی کورٹ بار نے بھی ہڑتال کی کال دے دی اور یہ ہڑتال اب 7 جون تک جاری رہے گی۔ ایک روزہ ہڑتال کے بعد بیوروکریسی نے تو بازوﺅں پر کالی پٹی باندھ کر منگل سے کام کا آغاز کر لینا ہے تاہم انہوں نے بھی واضح کیا ہے کہ جمعرات تک کام جاری رکھنے کے بعد وہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے دوبارہ سے لائحہ عمل طے کریں گے۔
اس معاملہ پر صوبائی منیجمنٹ سروسز کی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عرفان محسود نے بتایا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب جو کچھ ہوا س کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں، سرکاری ملازمین اس معاملہ کی شفاف جانچ چاہتے ہیں اور اسی لئے وکلاء سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم وکلاء نے مطالہ کیا کہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو برطرف کیا جائے جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عرفان محسود نے مزید کہا کہ سرکاری ملازمین کا روزمرہ کا سامنا عوام کے ساتھ رہتا ہے، جس طرح ڈپٹی کمشنر دفتر پر حملہ کیا گیا اس صورتحال میں سرکاری ملازمین کیسے کام کر سکتے ہیں؟ صوبائی حکومت ہمیں قانونی اور جسمانی تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔ عرفان محسود نے معاملہ کو جرگہ کے ذریعے ختم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رحمن اللہ ایڈوکیٹ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر حملہ کرنے میں کوئی وکیل ملوث نہیں ہے، اگر کسی کے پاس وکیل کے حملے کی کوئی ویڈیو موجود ہے تو بار ایسوسی ایشن خود ایکشن لے گی۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور آج بھی دروازے کھلے ہیں لیکن بات تب ہو گی جب آفتاب احمد کو معطل کیا جائے گا، یہ تمام سرکاری ملازمین ہیں اور انہیں بطور ملازمین کام کرنا چاہئے، سرکاری ملازمین کیخلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی گئی ہے، عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے کس طرح احتجاج کرتے ہوئے کام کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں، پیر کے روز انہوں نے جو احتجاجاً کام کا بائیکاٹ کیا ہے ان سے اس تنخواہ کی کٹوتی کی جائے گی۔
دوسری جانب وکلاء اور بیوروکریسی کے درمیان جنگ میں سب سے زیادہ عوام متاثر ہو رہی ہے، چترال سے لنڈی کوتل تک اور ڈی آئی خان سے ایبٹ آباد تک تمام سرکاری ملازمین ہڑتال پر تھے جبکہ عدالتوں کی کارروائی بھی معطل رہی جس کی وجہ سے تاریخوں کے منتظر شہریوں کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا اور سرکاری دفاتر کا چکر کاٹنے والے شہریوں کو بھی مایوس ہی ہونا پڑا۔
پشاور یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم ایک غلامانہ ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کر ہے ہیں، انگریز تو چلے گئے لیکن بیوروکریسی آج بھی اسی انداز سے اپنی زندگی گزار رہی ہے، عوام کی فلاح کی کوئی نہیں سوچتا، بیوروکریسی میں بھرتی عوام کیلئے کی جاتی ہے، عدالتیں عوام کیلئے لگتی ہیں لیکن عوام کا حق کیا ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا حتیٰ کے عوام کو بھی نہیں معلوم کہ ان کا حق کیا ہے اور وہ اپنا حق چھیننا بھی نہیں جانتے۔