ارشدعلی خان
ویسے تو ہماری تاریخ اپنی سیاست کے لیے مذہب کے دانستہ استعمال، اینٹی امریکن سلوگنز اور پختونوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے فراموش کرنے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ہر سیاسی جماعت نے پاکستانی عوام کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے تاہم عمران خان نے جس طرح اپنے سیاسی نعروں کا استعمال کیا ہے شاید کہ کسی اور دور حکومت یا سیاسی پارٹی نے کیا ہو۔
چارسدہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کو اسلامی ٹچ دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم سیاست نہیں جہاد کر رہے ہیں،اگر موجودہ حکومت ختم نہ کی گئی تو شہباز حکومت اسرائیل کو تسلیم کر لے گی جس کے لیے انہوں نے ثبوت کے طور پر پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک وفد کے دورہ اسرایل کا حوالہ دیا۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والے وفد میں سرکاری ٹی وی کے ایک امریکی شہریت رکھنے والے اینکر پرسن بھی شامل تھے۔(یہاں خان صاحب نے غلط بیانی کی)۔عمران خان صاحب اپنے کارکنانوں کو بتانا تو بھول ہی گئے کہ احمد قریشی نامی اینکر پرسن کو ان کی اپنی حکومت میں سرکاری ٹی وی پر پروگرام دیا گیا تھا لیکن اب چونکہ معاملہ سیاست کا تھا اس لیے انہوں نے دھڑلے سے احمد قریشی اور ان کے دورہ اسرائیل کو موجودہ حکومت کے ساتھ نتھی کر لیا ، (وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق احمد قریشی کو دورہ اسرایئل کی پاداش میں سرکاری ٹی وی سے برطرف کر دیا گیا ہے )۔
دوسری جانب سے احمد قریشی نے مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے پچھلے 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک پاکستانی یہودی کو پاسپورٹ جاری کیا ہے جس میں مذہب کے خانے میں یہودی لکھا گیا ہے ( جس پاکستانی یہودی کو پاسپورٹ جاری کیا گیا وہ بھی امریکہ سے اسرائیل جانے والے وفد میں شامل تھا)۔
سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹوئٹر پر احمد قریشی نے 16 میی 2022 کو ایک ٹویٹ کیا جس کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں حکومتی سطح پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے کے لیے تیار تھے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے احمد قریشی نے اپنی ٹویٹ کی وضاحت کچھ یوں کی “عمران خان کے جولائی 2019 میں دورہ امریکہ کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی جس میں پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا “۔ اس کے علاوہ متنازعہ اینکر پرسن احمد قريشي نے مختلف ٹی وی چینلز سے بات چیت کے دوران اور بھی الزامات عاید کیے ہیں۔
چارسدہ میں ورکر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب ایک اور غلطی بھی کر بیٹھے، ہوا یوں کہ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹویسٹ او انصاف سٹوڈنٹس کے سابقہ صدر محمد زادہ اگرہ کے قتل کے خلاف ان کے لواحقین اور پختونخوا امن جرگہ نے عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تاہم عمران خان کچھ اور سمجھے احتجاجی بینر کو لہراتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ محمدزادہ اگرہ کے قتل کے ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہپں،عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ محمد زادہ اگرہ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر ان کی پارٹی بھرپور احتجاج کرے گی (یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ محمد زادہ اگرہ کو 8 نومبر 2021 کو ملاکنڈ کے سخاکوٹ علاقے میں نامعلوم مسلح ملزمان نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔اس سے قبل ایک کھلی کچہری میں محمد زادہ نے ڈپٹی کشمنر ملاکنڈ پر ڈرگ مافیا کا ساتھ دینے کا الزام عاید کرتے ہوئے شدید تنقید کی تھی۔محمد زادہ کے قتل کے خلاف علاقے بھر میں شدید احتجاج کیا گیا جس کے بعد صوبائی حکومت نے ڈی سی ملاکنڈ الطاف شیخ اور اسسٹنٹ کمشنر فواد خٹک کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا۔محمد زادہ کے قتل میں ملوث دوہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم لواحقین الزام لگاتے ہیں کہ اصل مجرموں کو بچانے کے لیے ملاکنڈ دویژن کے نامی گرامی منشیات فروش کے گن مینوں کی بظاہر گرفتاری عمل لائی گئی ہے ) ۔
اب آتے ہیں تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان سمیت دیگر قایدین کے حالیہ بیانوں کی جانب۔ایک پریس کانفرنس میں خان صاحب نے یہ اعتراف کر لیا کہ لانگ مارچ کے دوران کے ان کے کارکن بھی مسلح تھے اور اگر وہ واپسی کی راہ نہ لیتے تو کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا تھا۔
عمران خان کے بیان کی دیر تھی کہ تحریک انصاف کے دیگر لیڈر بھی میدان میں کود پڑے۔
عدالت ميں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز گل کا فرمانا تھا کیا اپ کو پتہ ہے کہ ہماری سب سے زیادہ سپورٹ کس صوبے میں ہے۔ کے پی کے میں اور کے پی کے میں کون بستے ہیں،کے پی کے میں وہ پختون بستے ہیں جن کو اگر اپ ایک تھپڑ ماریں گے تو جب تک اس کا جواب نہیں آئے گا تب تک اپ کو معاف نہیں کیا جایے گا،۔۔۔یہ ان کا کلچر ہے۔شہباز گل نے پختون غبارے میں مزید ہوا بھرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور سے بیس سال مقابلہ کیا ہے اور وہ لوگ ہارے نہیں،کیا اپ کو لگتا ہے وہ اپ سے ہار جاییں گے،شہباز گل نے مزید بھی بہت سی باتیں کی جو لکھنے کے قابل نہیں۔
اسی طرح فواد چوہدری سیمت تحریک انصاف کے دیگر قائدین بھی وفاقی حکومت او وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو پختونوں سے ڈرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح فیس سیونگ کی جا سکے۔
اگر دیکھا جائے تو جب بھی حکمرانوں کو ضرورت پڑتی ہے ، تو سب نے اپنے اپنے اوقات کے مطابق پختونوں کے کلچر اور لوگوں کو مذہب کے رس گلے میں قید کرکے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے ، فائدہ صرف اور صرف ان سیاسی لیڈاران کو ہوا ہے ، اور یہاں کے پشتون کام ہونے کے بعد پھر سے دہشت گرد ، ان پڑھ اور گوار جیسے القابات کے ساتھ اپنے محرومیوں کو لیکر خاموش ہوجاتے ہیں۔اب بھی عمران خان پشاور میں ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں اور خیبرپختونخوا کے وسائل کا بے دریغ استعمال جاری ہے تاہم خیبرپختونخوا کی بدقسمتی ہے کہ جب صوبے کے حقوق کی بات آتی ہے تو وہاں خان صاحب سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماوں کی ترجیحات میں پختونخوا کہیں نظر نہیں آتا۔