کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات، ٹی ٹی پی کی شرائط کیا ہیں؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کیلئے پشاور سے 50 رکنی جرگہ کابل پہنچ گیا ہے فریقین امن مذاکرات میں حصہ لیں گے جبکہ افغان حکومت ثالث کا کردار ادا کرے گی۔
زرائع کے مطابق 50 رکنی جرگہ میں سابق گورنر شوکت اللہ خان، جماعت اسلامی کے رہنمائ اور سابق ایم این اے ہارون الرشید، جے یو آئی کے سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ اور پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان سمیت دیگر شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق جرگہ مذاکرات کا حصہ ہو گا اور اہم نکات پر افغان طالبان کی وساطت سے کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت سے بات چیت کرے گا، اس حوالے سے جرگہ ارکان پرامید ہیں کہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں زرائع نے بتایا کہ حکومتی سرپرستی میں کابل پہنچنے والے پچاس رکنی جرگہ میں قبائلی مشران کے علاوہ ملاکنڈ، دیر اور چترال سے بھی نمائندے شامل ہیں۔
واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات سابق حکومت کے دور میں شروع ہوئے تھے، پاکستان کی جانب سے اسے طالبان جو ہتھیار ڈال کر ملک میں پرامن طریقے سے رہنے اور یہاں کاروبار کرنے کے لئے تیار ہوں، ان کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ زرائع کے مطابق 50 رکنی جرگہ بھی طالبان کو انہی خطوط پر صلح اور جنگ بندی کی پیش کش کرے گا۔
تاہم دوسری جانب طالبان کی شرائط کافی سخت ہیں، حال ہی میں کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جاری ایک بیان میں مطالبات پیش کئے گئے تھے جن میں ساتھیوں کی رہائی، ضم اضلاع کو واپس فاٹا کا سٹیٹس دینے، ایف سی آر بحال کرنے اور سب سے بڑھ کر یہاں خلافت کا قیام چیدہ چیدہ نکات ہیں۔
زرائع کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے وفد میں شامل پشتون اور قبائلی مشران ریاست پاکستان کی طرف سے ضامن ہوں گے تایم دوسری جانب ٹی ٹی پی ایسی کوئی ضمانت دینے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے غیرمعینہ مدت کیلئے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔