مریم نواز کے بارے میں عمران خان کے بیان پر کھلبلی مچ گئی
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران کے اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا جب انہوں نے جمعہ کو ملتان میں ہونے والے سے جلسے کے دوران مریم نواز کا حوالہ دیتے ہوئے تبصرہ کیا تھا کہ "مریم! اتنے جذبے اور جنون سے میرا نام نہ لیا کرو کہیں تمھارا خاوند ناراض نہ ہو جائے۔”
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے بیان پر خواتین صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیان سے خواتین کا معاشرتی وقار اور احترام مجروح ہوا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں معروف ریڈیو براڈکاسٹر و سینئر صحافی بشرٰی اقبال حیسن نے بتایا کہ ان کے لئے یہ بیان چونکا دینے والا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی اپنی ہی خواتین کارکن خود کو شیرنیاں اور فالورز سمجھتی ہیں تو اس بیان سے ان کے والد، بھائی یا شوہر کیا محسوس کریں گے؟
بشرٰی اقبال کہتی ہیں کہ عمران خان نے خود عمر کا کچھ حصہ مغربی ممالک میں گزارا ہے اور اس دوران ان کی زندگی میں کئی خواتین آئیں اور چلی گئی ہیں لیکن آج تک انہوں نے عمران کے خلاف کوئی نازیبا گفتگو نہیں کی "یہاں تک کہ جب ان کی سابقہ بیوی ریحام خان نے اپنی کتاب میں قابل اعتراض اعمال سے پردہ اُٹھایا تو بھی کسی خاتون نے ان کے بارے میں کوئی غیراخلاقی اور نازیبا گفتگو نہیں کی لیکن عمران خان نے مریم نواز کو ذاتی حملہ کر کے اپنے پورے امیج کو زمین بوس کر دیا۔”
سینئر صحافی بشریٰ نے دیگر سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے لئے نازیبا گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کیلئے نامناسب الفاظ کا استعمال پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ مریم نواز کے والد میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے اہم رہنماؤں نے 1988/89 کے عام انتخاب کے دوران بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے حوالے سے نہ صرف غیراخلاقی گفتگو کی تھی بلکہ ان کی قابل اعتراض تصاویر بھی چھپی تھیں۔
بشریٰ اقبال حسین کہتی ہیں "وہ تصاویر میں نے خود دیکھی ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اصلی تھیں یا جعلی لیکن اس میں بیگم نصرت بھٹو ایک ڈانس کلب میں ناچتی ہوئی نظر آ رہی ہیں، اس کے علاوہ جب زرداری صاحب جیل میں تھے اور آصفہ بھٹو پیدا ہوئیں تو اس وقت مخالفین نے نازیبا بیانات دیئے تھے جو اب بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں تو میرے خیال میں یہ مکافات عمل ہے اور عمران خان کو بھی اس وقت سے ڈرنا چاہئے۔”
انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹی کی قیادت کی جانب سے اخلاق سے گرے بیانات دینا اور بالخصوص خواتین کے بارے میں ذومعنی الفاظ کے استعمال سے خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور خاص طور پر وہ خواتین جو آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔
https://twitter.com/SHABAZGIL/status/1527713960262193153?t=bNN5cWmvKqos1pF87ei71A&s=19
دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر عمران خان کے بیان کے خلاف کچھ سوشل میڈیا یوزرز شرمناک اور اخلاق سے گرے ہوئے ٹرینڈز بھی چلا رہے ہیں جس کا سٹوری میں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔ زیادہ تر مذمت کے جواب میں پی ٹی آئی کے حامیوں اور کچھ عہدیداروں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز شریف نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے خلاف کس طرح زہریلے ریمارکس دیئے تھے۔
عمران خان کے سابق مشیر شہباز گل نے اپنی ٹویٹ میں لکھا "آپ کو بشریٰ بی بی، مراد سعید کی بہنوں، شیریں مزاری اور زرتاج گل کے خلاف زہر اگلتے چپ کا سانپ سونگھ گیا تھا لیکن آج آپ کی مردانگی اور اخلاقیات کا بھاشن صرف مخصوص لوگوں کیلئے ہیں۔”
پشاور ہائی کورٹ کی خاتون وکیل زینت محب کاکاخیل نے عمران خان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ایک خاتون کے متعلق جنسی تبصرہ باہر کام کرنے والی خواتین کے لئے باعث نفرت اور خطرناک ہے، "ایسے نامناسب الفاظ کا استعمال پہلے بھی سیاست میں ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے کیونکہ اس سے وہ خواتین متاثر ہوتی ہیں جو بمشکل اس قدامت پسند معاشرے میں سماج سے لڑ کر معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کیلئے نکلی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے نامناسب الفاظ کے استعمال کے پیچھے غصہ اور تناؤ ہے کیونکہ جس طرح دو ماہ قبل اسے سیاسی طور پر کارنر کیا گیا تو وہ اسی طرح ہی گفتگو سے اپنی بھڑاس نکالیں گے۔ لیکن زینت سمجھتی ہیں کہ پھر بھی ایک خاتون کے لئے ذومعنی الفاظ کا استعمال قابل مذمت ہے۔
سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی عمران خان کے بیان کی مذمت کی، اور مسلسل ان سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔