سیاست

مردان: 44 سالہ ہریندر دیوی کے سفر کی داستان جو ابھی ختم نہیں ہوا

سدرہ ایان

یہ منزل کی کہانی نہیں بلکہ 44 سالہ ہریندر دیوی کے سفر کی داستان ہے جو ابھی ختم نہیں ہوا۔

مردان میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ ہریندر دیوی نے ہمت و حوصلے کی ایک مثال قائم کی۔ جتنی ان کی حوصلہ شکنی کی گئی اتنی ہی انہوں نے ہمت دکھائی، جتنی وہ تنقید کا نشانہ بنیں اتنی وہ تنقید کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے لگیں۔ جتنا انہیں اندر سے توڑا گیا ویسے ہی اپنے ٹکڑے جوڑ کر اپنے راستے پر منزل ڈھونڈنے نکلیں اور جو اقلیتی ہونے کے پتھر ان پر برسائے گئے انہی پتھروں سے انہوں نے اپنے لیے کامیابی کی سیڑھی بنائی۔

لیکن انسان اکیلے چاہے جتنی بھی کوشش کر لے اسے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تب اگر آپ کے اردگرد مخلص لوگ ہوں تو آپ کو آگے بڑھنے کا راستہ مل جاتا ہے۔ اسی طرح سیاست میں آنے کی خواہش رکھنے والی ہریندر دیوی نے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن ان کے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ آئی جس سے وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں۔ جبکہ اردگرد کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس الیکشن لڑنے کے اخراجات نہیں تھے۔

ہریندر دیوی ضلع  ملاکنڈ میں ایک اچھے خاصے امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن بچپن ہی سے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا گیا اور یہ اصول ان کے تمام گھر والوں کے لیے تھا کہ ہر بندہ خود کمائے گا اور بنیادی ضروریات کے علاوہ اپنی خواہشات خود پورے کرے گا۔ اس لئے ہریندر دیوی نے بچپن ہی سے سلائی کڑھائی سیکھی اور اپنے دادا سے ناڑے/ازاربند بننا سیکھا۔

ہریندر دیوی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت ہی شوق تھا مگر گھر کے بڑے تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ تب ایسا ہوا کہ ان کے محلے میں ایک سکول کھل گیا جہاں وہ اپنی بہنوں کے ساتھ والد سے چھپ کر جایا کرتی تھیں۔ ماں سوتیلی ہونے کے باوجود ان کی خواہش کو سمجھ گئی تھیں تبھی وہ بھی ہریندر کے جائز شوق کے لیے ان کی مدد پر مجبور ہو گئیں۔

جب اعلی تعلیم کا وقت آن پہنچا تو تب والد صاحب کے دستخط چاہیے تھے۔ تبھی ہمت کر کے والد صاحب کو اپنی تعلیم کا بتایا اور آگے پڑھنے کے لیے فارم پر دستخط کرنے کے لیے درخواست کی لیکن ان کے والد صاحب نے انتہائی سختی سے منع کیا کہ جب تک میں زندہ ہوں اس گھر سے کوئی لڑکی کسی بھی کام کے لیے پاؤں گھر سے باہر نہیں رکھے گی۔

لیکن بہت منت سماجت کے بعد آخرکار ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور والد صاحب نے بے دلی سے ان کو آگے پڑھنے کی اجازت دے دی لیکن سکول جانے سے پہلے صبح چار بجے اٹھنا تھا، گھر کے سارے کام کاج کر کے پیدل سکول جانا تھا کیونکہ سکول جانے کا کرایہ کبھی انہیں نہیں ملتا تھا، ہریندر کی دو بہنیں اور تین سوتیلے بھائی تھے، سب بہن بھائیوں میں کافی پیار و محبت تھا۔

ہریندر کہتی ہیں کہ وہ اور ان کی بہنیں صبح چار بجے اٹھتیں، ناشتہ تیار کرتیں، برتن دھوتیں، گھر کی صفائی ستھرائی کرتیں، آٹا گوندھتیں تو تب سکول کے لیے نکلتیں لیکن پھر بھی یہ سب خوشی خوشی قبول کر لیا کیونکہ پڑھنے کی اجازت مل تو گئی چاہے جیسے بھی تھی۔ لیکن ہریندر پر آسمان تب ٹوٹ پڑا جب وہ آٹھویں جماعت کے امتحان سے واپس گھر آئیں اور انہیں یہ خبر دی گئی کہ ان کا رشتہ پکا ہو گیا ہے۔ ہریندر کی سوتیلی ماں یہاں ان کا ساتھ چھوڑ گئی۔

ان کے دل پر تو قیامت گزر ہی رہی تھی لیکن ہریندر کو اس معاملے میں آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کی دو بڑی کنواری بہنوں کو چھوڑ کر ڈائریکٹ ہریندر ہی کا رشتہ پکا کیا گیا اور اگلے سال نویں جماعت میں پڑھنے والی ہریندر  پندرہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دی گئیں۔

لیکن اصل قیامت تب ٹوٹ پڑی جب انہوں نے اپنے شوہر کو دیکھا کیونکہ وہ ایک انتہائی غیرمہذب انسان تھے، گالم گلوچ، مار پیٹ تو ان کا مشغلہ تھا، اس کے ساتھ ہر وقت نشے میں دھت رہتا، ہریندر کے لئے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ لیکن ہریندر کے پاس چپ رہنے کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ میکے سے بھی دھمکیاں ملتی تھیں کہ اب اس گھر سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔

لیکن دل صحیح معنوں میں تب دکھا جب پتہ چلا کہ ان کے شوہر نے ان  کے زیورات جو کہ والد صاحب نے بنا کر دیئے تھے، جھوٹ بول کر بہانے سے لیے اور بیچ دیئے اور اس کے بعد ایک ایک کر کے گھر کا سامان بھی بیچ دیا، چودہ لاکھ روپے کے قرض کی وجہ سے اپنا گھر فروخت کیا اور پشاور شفٹ ہوئے، جس گھر میں شفٹ ہوئے وہ تیسری منزل پر تھا، تب ہریندر امید سے بھی تھیں اور حمل کی حالت میں وہ سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر پانی لاتیں اور گھر کے کام کرتیں، یہ وہ وقت تھا جب انہیں ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی جبکہ ان کا شوہر اپنی زندگی میں مست چوبیس گھنٹے دوستوں کے ساتھ وقت گذارتا اور نشہ کرتا تھا۔

ہریندر کے ہاں بیٹا اور بیٹی ہوئے مگر حالات نہیں بدلے۔ تب ہریندر نے شوہر سے کہا کہ انہیں کوئی ایسا کام دلوائے جو وہ گھر بیٹھ کر کر سکیں، تو ان کے دیور نے کہا کہ میں آپ کو مصالحے لا دوں گا آپ وہ پیک کر لیا کریں تو اس سے تھوڑے بہت پیسے آئیں گے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان کا دیور بھی ان کے ساتھ اس کام میں فراڈ کر گیا ہے۔ پھر سلائی کڑھائی شروع کی اور پھر سے مصالحے کا کاروبار شروع کیا اور وہی کاروبار کرتے کرتے آٹھ سال بیت گئے، تنگی جوں کی توں رہی۔

آٹھ سال بعد وہ مردان شفٹ ہوئے اور تب خدا نے انہیں ایک اور بیٹا دیا یوں ان کے کل تین بچے ہوئے، لیکن زندگی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ پھر ان کے شوہر کو فالج ہو گیا تب ان پر بوجھ مزید بڑھ گیا کیونکہ گھر اور بچوں کے ساتھ ساتھ شوہر کا خیال بھی رکھنا تھا، گھر بھی سنبھالنا تھا اور پھر چلانا بھی، وہ ہریندر کے زندگی کے سخت ترین دن تھے اور ایسے میں جوانی میں ہی ہریندر نے اپنا جیون ساتھی کھو دیا جس نے عمر بھر انہیں دکھ کے سوا کچھ نہیں دیا تھا اور اب وہ وقت آیا جب انہیں احساس ہوا کہ اب انہیں اپنے بچوں کا باپ بھی بننا ہے۔ تب جب وہ گھر سے نکلیں تو کبھی پولیو ڈیوٹی کی، کبھی سروے کیے، کبھی پیڈ ورک شاپس کے لیے جانے لگیں اور ایسی غربت میں بھی اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور مناسب عمر میں اپنی بیٹی بیاہ دی۔

پھر جب مردان میں بلدیاتی الیکشن شروع ہوئے تو ہریندر نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ الیکشن لڑیں گی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے جیسی خواتین کے لیے کام کریں، انہوں نے اپنے لیے کچہری سے کاغذات لیے، کئی دفاتر گئیں، فارمز بھرے۔ کاغذی کارروائی آدھی ہو گئی کچھ باقی رہ گئی تھی۔ ہریندر دیوی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت سے لوگوں سے مدد مانگی، رہنمائی مانگی کہ کوئی طریقہ کار سمجھائے لیکن انھیں سمجھانے والا کوئی نہیں تھا، کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ یوں ان کے ہاتھ سے الیکشن  کا وقت نکل گیا اور وقت پر اپنی کاغذی کارروائی مکمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ الیکشن نہ لڑ سکیں، بعد میں اردگرد کے لوگوں نے مشہور کیا کہ ان کے پاس پانچ ہزار کی فیس نہیں تھی جبکہ ہریندر کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا، وہ کہیں سے بندوبست کر ہی لیتیں لیکن ان کے اردگرد ایسا کوئی ایک بندہ نہیں تھا جو انہیں وقت پر گائیڈ کرتا۔

ہریندر کو سو فیصد یقین تھا کہ اگر وہ الیکشن لڑتیں تو وہ بلامقابلہ ہی جیت جاتیں کیونکہ مردان میں ہندو کمیونٹی سے کوئی بھی خاتون الیکشن لڑنے کے لیے کھڑی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ ہزار کی فیس آخری فارم کے ساتھ الیکشن کمیشن دفتر میں جمع کروانا تھی لیکن وہ تو اس مرحلے تک پہنچی ہی نہیں۔

پھر انھیں پتہ چلا کہ مردان میں کچھ غیرسرکاری تنظیمیں ہیں جو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں تب ہریندر نے مردان میں جذبہ پروگرام کے نام سے خواتین کی سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم  کے ساتھ کام شروع کیا جہاں سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا حتی کہ ہریندر دیوی نے الیکشن لڑنے کا سارا طریقہ کار سیکھا  اور دل میں عہد کیا کہ اگلی بار وہ پوری تیاری کے ساتھ الیکشن لڑیں گی، وہ عملی سیاست میں آئیں گی اور اپنی جیسی تمام حوصلہ مند خواتین کے لیے کام کریں گی اور ان کے لیے مشعل راہ بنیں گی اور اب یہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔

ہریندر کا عزم بتاتا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں ہرنیدر کو خدمت کے جذبے سے سرشار ایک نئے روپ میں دیکھیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button